اکثر فقہاء کی رائے تو یہی ہے کہ امامت متغلب جائز ہے اور اس کی اطاعت بھی لازم ہے‘البتہ فاسق وفاجر حکمران کے بارے میںا مام ابوحنیفہ کی رائے یہ ہے کہ اس کے خلاف بغاوت کی جاسکتی ہے.باقی فقہاء کے نزدیک فاسق و فاجر حکمران خواہ اپنے محل کی چاردیواری میں رنگ رلیاں منا رہا ہے یا اورکچھ کر رہا ہے ‘ لیکن وہ نماز قائم کر رہا ہے ‘ جمعہ‘ جماعت اور حج کا سارا انتظام کررہا ہے تو اس کی اطاعت کرو‘ البتہ اگر وہ کفر کا حکم دے توپھر اس کے خلاف کھڑے ہو جائو ‘اس لیے کہ اس کے بعد معاملہ ایک حد سے تجاوزکر جائے گا. امام ابوحنیفہ ؒ کی رائے یہ ہے کہ فاسق و فاجر شخص کے خلاف اس وقت بغاوت ہو سکتی ہے جب اس پر کوئی نصیحت اثر نہ کر رہی ہو. پہلے امر بالمعروف ونہی عن المنکر زبان سے کیا جائے‘ دیکھو باز آ جاؤ‘ان چیزوں کو چھوڑدو‘ لیکن اگر وہ باز نہیں آرہااور اس نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھا رہا تو پھر نہی عن المنکرتلوار کے ذریعے سے ہو گا. البتہ بغاوت اور مسلح جدوجہد کی صورت میں امام ابوحنیفہ یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ طاقت اتنی ہونی چاہیے کہ کم از کم ظاہری حالات واسباب کے مطابق کامیابی یقینی ہو جائے. یہ نہیں کہ تھوڑے سے لوگ جمع ہوکر بغاوت کا نعرہ لگا دیں اور پھر سب کے سب کچل دیے جائیں.لیکن یہ بھی امر واقعہ ہے کہ ملوکیت کے نظام میں اتنی طاقت فراہم ہوجانا ‘ناممکن ہے.