اس کے بعد رسول اللہ نے فرمایا: فَاِنَّہٗ مَنْ یَّعِشْ مِنْکُمْ بَعْدِیْ فَسَیَرَی اخْتِلَافًا کَثِیْرًا ’’پس جو بھی تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا وہ یقینا بہت سارے اختلافات دیکھے گا‘‘.اب یہ اختلافات کئی طرح کے ہوسکتے ہیں.ایک تورائے کا اختلاف ہوتاہے‘ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا کہ مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف آپ اقدام نہ کریں. دو محاذ تو پہلے ہی کھلے ہوئے ہیں. آپؓ نے جیش اسامہ ؓ بھی روانہ کر دیاہے.چونکہ وہ لشکر حضور نے تیار کیا تھااور آپ نے اسے روکنا مناسب نہیں سمجھا تو سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا .پھر ظاہر بات ہے کہ جھوٹی نبوت کے دعوے داروں کے خلاف جنگ بھی کرنی ہی کرنی ہے‘لیکن جن لوگوں نے صرف زکوٰۃ دینے سے انکار کیا ہے وہ کافر تونہیں ہوئے . اصل میں انہوں نے زکوٰۃ کا انکار نہیں کیا تھا‘بلکہ ان کا موقف یہ تھا کہ ہم زکوٰۃ خود لیں گے‘خود تقسیم کریں گے اورحکومت کو نہیں دیں گے. لیکن حضرت ابوبکرؓ ڈٹے رہے اور آپؓ نے فرمایا: أَیُنْقَصُ الدِّیْنُ وَاَنَا حَیٌّ ؟ (۱کیا دین میں کمی کی جائے گی جبکہ میں ابھی زندہ ہوں؟‘‘ میرے جیتے جی یہ نہیں ہو سکتا. خدا کی قسم!اگر حضور کے زمانے میں یہ لوگ زکوٰۃ کی مد میں اونٹوں کے ساتھ ان کو باندھنے والی رسیاں بھی دیتے تھے اور اب اگر یہ کہیں کہ یہ اونٹ لے جائو اور عقال ہم نہیں دیں گے تب بھی میں ان سے جنگ کروں گا. اونٹ کے مقابلے میں عقال کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ‘لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دین میں اتنی ترمیم بھی گوارا نہیں تھی.

یہ تورائے کا اختلاف تھا‘جبکہ بعد میں مسلمانوں میں سیاسی نوعیت کے اختلافات بھی ہوئے اوریہ اختلافات شدید نوعیت کے تھے. آپ کو معلوم ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر زبردست اختلاف پیدا ہوا. مدینے کے لوگ‘ جن میں ایک بڑی تعداد بلوائیوں کی تھی اور جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا‘ ان لوگوں نے حضرت علیؓ کے ہاتھ پربیعت کر لی اورحضرت علی خلیفہ مقرر ہو گئے.دوسری طرف بہت سے صحابہ کرامؓ نے ان کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا.حضرت امیر معاویہ‘حضرت عمرو بن العاص‘ حضرت زبیر ‘ حضرت طلحہ اور حضور کی زوجہ محترمہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ( رضوان اللہ علیہم اجمعین)نے کہا کہ پہلے آپ قاتلین عثمانؓ کو سزا دیں‘ پھر ہم آپ کی بیعت کریں گے. اس کے علاوہ ہمیں آپ سے کوئی اختلاف نہیں ہے . بہرحال یہ اختلاف بڑا شدید ہوا اور جنگ جمل ہوئی‘ جس میں ایک رات میں دس ہزار مسلمان قتل ہوئے.اس کے(۱) تخریج مشکاۃ المصابیح لابن حجر العسقلانی : ۵/۳۹۷ بعد حضرت امیر معاویہؓ اورحضرت عمرو بن العاصؓ شام اور مصر کی فوجوں کو لے کر آئے اورپھر جنگ صفین جیسا بہت بڑا معرکہ ہواجس میں ۷۴ ہزار مسلمان ختم ہوئے. پھر وہیں سے خوارج کا ایک فرقہ نمودار ہوااور ان کے خلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ کی تو چار ہزار خوارج جنگ نہروان میں ختم ہو گئے.اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہاد ت سے لے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت تک تقریباً ایک لاکھ مسلمان ایک دوسرے کی تلواروں اور نیزوں سے شہید ہوئے.

پھر ہمارے ہاں فقہی اختلافات بھی پیدا ہوئے. مختلف مکاتب فکر کے اصول فقہ مختلف ہو گئے. اہل علم کے مابین یہ اختلاف بھی پیدا ہوا کہ قرآن و سنت سے مستنبط ہونے والی رائے کو ترجیح دی جائے گی یا خبر واحد کو؟ اس پر ہمارے ہاںپورے دو مسلک بن گئے. ایک ’’اصحاب الرائے‘‘ کہلاتے ہیں‘ جن کے سرخیل امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ ہیں اور ایک ’’اصحاب الحدیث‘‘ کہلاتے ہیں جن کے سرخیل امام مالک‘ امام شافعی اور پھر امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ ہیں. اصحاب الحدیث اخبار احاد کو‘ جبکہ اصحاب الرائے ان کے مقابلے میں قرآن حکیم اور پختہ احادیث کی روشنی میں قائم ہونے والی رائے کو ترجیح دیتے ہیں.اسی طرح امام ابوحنیفہ ؒ اور امام شافعیؒ کے مابین بہت سے فقہی معاملات میں اختلاف ہو گیا.