انسانی کامیابی کے لیے قرآن مجید میں تیسرالفظ رُشداستعمال ہوا ہے اور یہ روحانی اعتبار سے سب سے اونچا مقام ہے‘گویا انسان اپنے منتہائے مقصود کو پہنچ جائے.یہ لفظ قرآن مجیدمیں صرف دو مرتبہ آیا ہے. ایک تو سورۃ الحجرات میں صحابہ کرام jکے بارے میں آیا ہے:
وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَ کَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَ الۡفُسُوۡقَ وَ الۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ ۙ﴿۷﴾
’’لیکن اللہ نے تمہارے دلوں کے اندر محبوب ترین شے ایمان کو بنا دیا اور اسے مزین کر دیا تمہارے دلوں میں اور بہت ہی ناپسندیدہ بنا دیا اللہ نے تمہارے نزدیک کفر کو‘فسق کو اور گناہ کو.یہی ہیں وہ لوگ جو رشد کو پہنچ جانے والے ہیں.‘‘
دوسری مرتبہ یہ لفظ سورۃ البقرۃ میں آیا ہے جہاں روزے کے احکام اور حکمتیں بیان ہوئی ہیں.روزے کا اصل حاصل اور اس کانقطہ عروج روحِ انسانی کو غذا پہنچانا اور جسم انسانی کو ذرا مضمحل کرنا ہے. بھوک‘ پیاس برداشت کرو تاکہ تمہارا جسم ذرا مضمحل ہوجائے . جب یہ حیوانی وجود مضمحل ہو گا تو اس روحانی وجود کو ریلیف ملے گا جو اس کے اندردبا ہوا ہے اور دبے ہونے کی وجہ سے گویاسسک رہا ہے یا تقریباً بے ہوش ہوچکا ہے.اس کے بعد اس کے اوپر قرآن کی بارش کرو اور رات کوقیام کرو. چنانچہ روزے کے ذریعے سے آپ نے جسم کو دبایا اور روح کو اٹھایا ہے تو اس سے جو مقام حاصل ہو گا وہ روحانی اعتبار سے بلند ترین مقام ہے‘ اسی لیے اس کے لیے لفظ ’’رشد‘‘ آیا ہے. فرمایا:
وَ اِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَ لۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ ﴿۱۸۶﴾
’’(اے نبیﷺ !)جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو (آپ انہیں بتا دیں کہ )میں تو بالکل قریب ہوں.میں ہر پکارنے والے کی پکار کوسنتا ہوں(اور قبول کرتا ہوں)‘ پس چاہیے کہ وہ مجھے پکاریں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ رشد کو پہنچ جائیں.‘‘ ظاہر بات ہے کہ انسان کے اندر جب حقیقی ایمان پیدا ہوتا ہے تو اللہ کا قرب حاصل کرنے کی ایک طلب سی ہوتی ہے اور اللہ کو دیکھنے کی بڑی خواہش پیدا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کا دیدارہی اصحابِ جنت کو ملنے والی سب سے بڑی نعمت ہو گی.اسی دیدار کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے درخواست کی تھی: رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ’’پروردگار! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھو ں‘‘.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَنۡ تَرٰىنِیۡ ’’ تم مجھے ہرگزنہیں دیکھ سکتے‘‘.یعنی اس عالم مادی میں رہتے ہوئے تم میرا دیدار نہیں کر سکتے اور میری تجلیات کو برداشت کرنے کی تم میں طاقت نہیں ہے .تم ذرا سامنے کے پہاڑ کو دیکھو‘ ہم اس پر اپنی ایک تجلی ڈالیں گے‘ اگر ہماری ایک تجلی کو وہ پہاڑ جھیل جائے تو پھر تم بھی ہمیں دیکھ سکو گے. فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا (الاعراف:۱۴۳) ’’پھر جب اُس کے رب نے اپنی ایک تجلی پہاڑ پر ڈالی تو وہ پہاڑ پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو گیااورموسیٰؑ بے ہوش ہو کرگر پڑے ‘‘. تجلی ٔباری تعالیٰ کے اس بالواسطہ مشاہدے کو بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام برداشت نہ کر سکے . پہاڑ پر تجلی کا پڑنا تھا کہ آپؑ بے ہوش ہو کر گر پڑے.لیکن آخرت میں اصحابِ جنت کو جو آخری نعمت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی وہ اللہ کا دیدار ہو گا.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنا دیدار نصیب فرمائے.
آمین!