تاریخ انسانی کا مطالعہ کرنے والوں کے علم میں ہے کہ لوگ اپنے رب کو پانے کے لیے ہی پہاڑوں میں بیٹھتے تھے‘ مراقبے کرتے تھے‘ غاروں میں نفس کشی کی ریاضتیں کرتے تھے . عیسائیوں کے اندرتو نفس کشی کی انتہا ہوئی ہے اور قرآن مجید میں ان کے اوپر تنقید بھی کی گئی ہے : وَرَھْبَانِیَّۃَنِ ابْتَدَعُوْھَا مَا کَتَبْنٰھَا عَلَیْھِمْ (الحدید:۲۷کہ رہبانیت کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کی‘جبکہ ہم نے ان پر یہ لازم نہیں کی تھی. اپنے نفس کو مارنے کا حکم اللہ نے نہیں دیا ہے. نفس کا بھی حق ہے ‘ اسے ادا کرو‘ یہ نہیں ہے کہ اسے کچل دو‘ اسے ختم کر دو. ہاں نفس کے تابع نہ ہو جاؤ بلکہ اپنے نفس کو اللہ کے احکامکے تابع کر دو. یہ ہمارا نفس ‘ ہمارا حیوانی وجود ہمارے پاس اللہ کی امانت ہے. یہ ہاتھ ‘ یہ پائوں‘ یہ آنکھیں‘ یہ کان‘ یہ ناک‘ یہ زبان‘ یہ ساری چیزیں ہمارے پاس اللہ کی امانت ہیں اور ان کا بھی حق ہے جن کو ادا کرنا ہم پر لازم ہے اور کل قیامت کے دن اس بارے میں ہم سے سوال ہوگا.

میں نے بارہا آپ کو بتایا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہماپوری رات بستر پر کمر لگاتے ہی نہیں تھے اور ہر روز روزہ رکھتے تھے‘بیوی سے کوئی سروکار ہی نہیں تھا. وہ خود روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ کو جب یہ معلوم ہوا تو آپؐ نے مجھے بلاکر (ذرا تیکھے انداز میں) دریافت فرمایا: اَلَمْ اُخْبَرْ اَنَّکَ تَقُوْمُ اللَّیْلَ وَتَصُوْمُ النَّھَارَ؟ ’’کیا مجھے یہ خبر نہیں ملی کہ تم رات بھر قیام کرتے ہو اور روزانہ دن کو روزہ رکھتے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا :جی ہاں! آپ نے فرمایا: فَلَا تَفْعَلْ‘ قُمْ وَنَمْ‘ وَصُمْ وَاَفْطِرْ‘ فَاِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘ وَاِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘ وَاِنَّ لِزَوْرِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘ وَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا… (۱’’تو ایسا مت کرو‘ (رات کو)قیام بھی کیا کرو اور سویا بھی کرو‘ اور روزے رکھا بھی کرو اور چھوڑ بھی دیا کرو‘ اس لیے کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے‘ تمہاری آنکھ (نیند) کا بھی تم پر حق ہے‘ تمہارے ملاقاتی کا بھی تم پر حق ہے. اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے…‘‘گزشتہ حدیث میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ بندۂ مؤمن کا اپنی بیوی سے ہم بستری کرنا بھی باعث ثواب ہے. ہمارے سارے حیوانی اعمال عبادت بن جاتے ہیں جب اللہ کے حکم کے تابع اور اللہ کی حدود یعنی حلال وحرام کے دائرے میں ہوں. آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو تمہاری زیارت اور ملاقات کے لیے آیا ہے تواس کا بھی تم پر حق ہے‘لہٰذا اس سے بھی خوشدلی کے ساتھ ملو.ایک موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا: تَـبَسُّمُکَ فِی وَجْہِ أَخِیکَ لَکَ صَدَقَۃٌ (۲’’تمہارا اپنے بھائی سے متبسم چہرے کے ساتھ ملنا بھی صدقہ ہے‘‘.یعنی اللہ کے ہاں اس کا بھی (۱) صحیح البخاری‘ کتاب النکاح‘ باب لزوجک علیک حق.

(۲) سنن الترمذی‘ ابواب البر والصلۃ والآداب‘ باب ماجاء فی صنائع المعروف. 
اجر ملے گا. یہ نہیں کہ آپ ’’عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا‘‘ بن جائیں اور وہ بھی پریشان ہو رہا ہو کہ میں خواہ مخواہ اس سے ملنے کے لیے آگیاہوں.