حضور اکرم نے فرمایا کہ کثرتِ اختلاف کے دور میں میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت (طریقہ) کو لازم پکڑو.اس ضمن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ خلفائے راشدین میں کون کون شامل ہے؟ حضرات ابوبکر‘ عمر‘ عثمان اور علی رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اہل سنت کا تواجماع ہے‘ جبکہ اہل تشیع پہلے تین کو نہیں مانتے. ان میں سے جوغالی قسم کے گروہ ہیں وہ پہلے تین خلفاء کو غاصب کہتے ہیں اور جو ذرا مائل قسم کے ’’زیدی شیعہ‘‘ ہیں وہ غاصب تو نہیں کہتے‘ لیکن ان کی رائے یہ ہے کہ حق بہرحال حضرت علیؓ ہی کاتھا کیونکہ وہ تمام صحابہ میں افضل ہیں‘ جبکہ اہل سنت کے نزدیک انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد پوری انسانیت میں افضل ترین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں‘ اس کے بعد حضرت عمرفاروق‘ پھر حضرت عثمان غنی اور پھر حضرت علی مرتضیٰ( رضوان اللہ علیہم اجمعین) ہیں. اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علیؓ باقی پوری نوعِ انسانی سے افضل ہیں‘ لیکن یہ تین حضرات ان سے افضل ہیں.

یہ چاروں حضرات تو بالاتفاق خلفائے راشدین ہیں‘جبکہ کچھ لوگ اس میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا بھی اضافہ کرتے ہیں. میں بھی سمجھتا ہوں کہ حضرت حسنؓ کو بھی خلفائے راشدین میں شمار کیا جانا چاہیے ‘اس لیے کہ وہ صحابی بھی ہیں اور ان کی بہت فضیلت احادیث میں بیان ہوئی ہے آپؓ کا شمارصغار صحابہ میں ہوتا ہے اور آپ حضور کی گود میں پلے بڑھے ہیں. عین نماز کی حالت میں حضور کے کندھوں پر سواری کی ہے. یہ حضرات حسنین رضی اللہ عنہماسجدے کی حالت میں حضور کی پیٹھ پر چڑھ کر بیٹھ جاتے توآپ کبھی سجدہ لمبا کردیتے اور کبھی بڑے ہی آرام سے انہیں نیچے اتارتے تھے. پھر نبی اکرم نے فرمایا کہ حضرات حسن وحسین رضی اللہ عنہما میرے باغ کے دو پھول ہیں دوسری بات یہ ہے کہ حضرت حسنؓ نے خود اپنی طاقت سے خلافت حاصل نہیں کی‘بلکہ وہ باہمی مشاورت سے منتخب ہوئے ہیں‘لہٰذا انہیں بھی خلفائے راشدین المہدیین میں شامل کیا جانا چاہیے .

البتہ امیر معاویہؓ کا معاملہ ذرا مختلف ہے. ہمارے ہاں بعض انتہا پسند لوگ حضرت امیر معاویہؓ کو بھی خلیفہ راشد کہتے ہیں ‘اس لیے کہ وہ بھی صحابی ہیں‘ لیکن اہل سنت نے ان کو اس طور سے تسلیم نہیں کیا ‘اس لیے کہ وہ متغلب ہیں. انہیں کسی نے نہیں چنا اور نہ ان کے لیے کوئی مشاورت ہوئی تھی. وہ توحضرت حسنؓ نے مسلمانوں میں خونریزی اور باہمی جنگ وجدل روکنے کے لیے دستبرداری اختیار کر کے خلافت امیر معاویہؓ کے سپرد کردی تھی. حضور نے حضرت حسنؓ کے بارے میں فرمایا تھا : ابْنِی ہٰذَا سَیِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّہَ أَنْ یُصْلِحَ بِہٖ بَیْنَ فِئَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ (۱’’ یہ میرا بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرا دے گا‘‘. اس سال کو عام الصُّلح (صلح کا سال) اور عام الْاَمن (امن کاسال)کہا جاتا ہے. اس کے بعد بیس برس تک حضرت امیر معاویہؓ کی خلافت رہی. 

حضرات ابوبکر‘ عمر‘ عثمان‘ علی اور حسن ( رضوان اللہ علیہم اجمعین) ان پانچوں حضرات کے دورِ خلافت کو جمع کیا جائے تو تیس سال بنتے ہیں اور اس میں حضرت حسن کے دورِ خلافت کے بھی چھ مہینے ہیں. حضور نے فرمایا تھا : اَلْخِلَافَۃُ بَعْدِیْ ثَلَاثُوْںَ سَنَۃً، ثُمَّ تَکُوْنُ مُـلْکًا (۲’’ میرے بعد خلافت تیس سال رہے گی‘پھر ملوکیت کا آغاز ہوجائے گا .‘‘ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور ملوکیت کا آغاز ہے‘ لیکن ابھی ملوکیت کی ساری خرابیاں اس میں نہیں آئی تھیں. ملوکیت کی خرابیاں بعد میں بنواُمیہ کے خلفاء میں آئیں اور بنوعباس کے دور میں اس میں مزید اضافہ ہوا.ان کے دور میں محلات بنے اور دنیوی کروفر اور شان و شوکت‘ جو شہنشاہوں میں ہوا کرتی تھی وہی خلفاء بنو عباس نے اختیار کی.