امیر سے اختلاف اور تنازع کی صورت میں فیصلہ کون کرے گا؟

سورۃ النساء کی آیت ۱۵۹کے الفاظ : فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ ’’اگر کسی معاملے میں تمہارے درمیان تنازع ہو جائے تو لوٹا دو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف‘‘میں ایک بات تو واضح ہے کہ اختلاف کی صورت میں (۱) صحیح البخاری‘ کتاب المناقب‘ باب علامات النبوۃ فی الاسلام.
(۲) صحیح ابن حبان‘ح:۶۹۴۳۰. جامع بیان العلم للامام احمد:۲/۱۱۶۹ راوی : سفینۃ ؓ 
فیصلہ کن وہی دو مطلق اطاعتیں ہوں گی‘ یعنی اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت. تاہم اس ضمن میںیہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ امیر اورمامور میں کسی تنازع کی صورت میں اللہ اور رسول کی طرف کون لوٹائے گا ‘یعنی کون فیصلہ کرے گا کہ کون صحیح ہے اور کون غلط. یہ مسئلہ بڑا ٹیڑھا ہے. فرض کیجیے اگر تودو مسلمانوں میں کوئی تنازع ہے تو امیر المو ٔمنین طے کرا دے ‘ لیکن اگر مسلمانوں کو اپنے امیر سے ہی اختلاف ہوگیاتو اس صورتِ حال میں کیا کریں گے؟ خلافت راشدہ کے دور میں تو اس کے ضمن میں کوئی ادارہ (institution) موجود نہیں تھا. اگرچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیعت خلافت کے فوراً بعد اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اگر میں اللہ اور اس کے رسول کے راستے پر چلوں تو تم پر میری اطاعت فرض ہے اور اگر میں ٹیڑھا ہونے لگوں یا غلط راستے پرچلوں تومجھے سیدھا کرنا تم پر فرض ہے.اب سیدھا کیسے کریں؟ اس کا وہاں کوئی طریق کار طے نہیں تھا.میں سمجھتا ہوں کہ خلفائے راشدین اس پہلو سے مستثنیٰ ہیں ‘اس لیے کہ وہ حضور کے انتہائی قریبی ہیں‘ لیکن بعد کے دور میں یہ کام عدلیہ (judiciary) کے ادارے کا ہے اور اب یہ فیصلہ عدلیہ کرے گی.

آج کے دور میں یہ معاملہ بہت واضح ہو کر سامنے آ گیا ہے کہ ریاست کے تین بنیادی ستون ہیں. (اگرچہ چوتھا بعد میں شامل کر دیا گیا ہے ‘لیکن اصل میں تین ہی ہیں.) ایک انتظامیہ ہے جو حکم دیتی ہے‘ ایک مقننہ ہے جو قانون بناتی ہے اور ایک عدلیہ ہے ‘جس کی اہمیت سب سے زیادہ ہو جاتی ہے. فرض کیجیے ایک ایگزیکٹو آرڈر آیا ہے‘ اس کے خلاف ایک شخص کھڑا ہو جاتا ہے کہ یہ تو آئین اور دستور (constitution) کے خلاف ہے‘ ہم اس ایگزیکٹو آرڈر کونہیں مانیں گے.اس صورت میں آپ آئینی عدالتوں (constitutional courts) یاسپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹائیں.پھروہ عدالت فیصلہ کرے گی کہ کیا صحیح ہے اورکیا غلط!

ہمارے ہاں جنرل ضیاء الحق نے شریعت کورٹ بناکرایک درست راستہ اختیار کیا تھا‘ لیکن اس کے اوپر پابندیاں لگا دیں‘ دو ہتھکڑیاں اور دو بیڑیاں پہنا دیں تو وہ کام بالکل بے کار ہو گیا. بہرحال راستہ صحیح تھا کہ عدلیہ فیصلہ کرے گی . اسی طریقے سے خاص شریعت کورٹ بنا دی جائیں اور وہ فیصلہ کریں کہ کون سی چیز اورکون سا قانون شریعت کے خلاف ہے.