زیر مطالعہ روایت کے آخر میں رسول اللہ  نے چوتھی وصیت یہ فرمائی: وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْاُمُوْرِ ’’اور دین میں نئی نئی باتیں نکالنے سے بچنا‘‘.بدعت کے موضوع اربعین نووی کی حدیث۵کے ضمن میں ہم تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں‘لہٰذا یہاں تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.بس یہ سمجھ لیجیے کہ ایک ہے قرآن اور سنت سے استنباط کر کے کوئی حکم نکالنا‘ اجتہاد کرنا‘ قیاس کرنا‘تو یہ سب جائز ہیں‘ لیکن اگر آپ نے دین میں بالکل نئی بات نکال لی جس کی تائید میںنہ قرآن سے کوئی دلیل ملی اور نہ سنت سے تو وہ بدعت ہے. خاص طور پر عبادات کے اندر ثواب کمانے کے لیے کیے جانے والے کام ‘جس کی سند ہمارے پاس نہ قرآن میں ہے ‘نہ حدیث میں‘ نہ خلفائے راشدین کے عمل میں اور نہ صحابہؓ کے عمل میں تو وہ بدعت شمار ہوں گے اور رسول اللہ  نے بدعت کے حوالے سے واضح فرمادیا کہ فَاِنَّ کُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ ’’پس (دین میں) ہر نئی بات یقینا بدعت ہے‘‘. وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’’(اورجان لو کہ)ہر بدعت یقینی طور پر گمراہی ہے‘‘ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی آئے ہیں: وَکُلَّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ ’’اور ہر گمراہی کا ٹھکانہ آگ ہے!‘‘ یا ’’ہر گمراہی آگ میں لے جانے والی ہے!‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس حدیث کے مندرجات پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس حدیث میں موجود حضور اکرم کی وصیتوں کو اپنانے اور ان کے مطابق زندگی گزارنے کی ہمت عطا فرمائے.

آمین یا رب العالمین! 
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات