اسلام کی حقیقت اور اس کے مختلف مظاہر میں ایک درجہ بندی ہے ‘جس کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے. اس حوالے سے سورۃ المائدۃ کی آیت۹۳ بڑی اہم ہے.جب شراب کی حرمت کا آخری حکم آیا تو بہت سے صحابہ کرامjپریشان ہوگئے کہ ہمیں اسی وقت شراب چھوڑ دینی چاہیے تھی جب شراب کی حرمت کا اشارہ آگیا تھا شراب کے حوالے سے سب سے پہلا حکم یہ آیاتھا: یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا ؕ (البقرۃ:۲۱۹’’(اے نبی !) یہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ ان کا کیا حکم ہے؟)آپؐ کہہ دیجیے کہ ان دونوں کے اندر بہت بڑے گناہ کے پہلو ہیں اور لوگوں کے لیے کچھ منفعتیں بھی ہیں‘البتہ ان کا گناہ کا پہلو نفع کے پہلو سے بڑاہے‘‘.اس کے بعد دوسرا حکم یہ آگیا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ (النسائ:۴۳’’اے اہل ایمان! نماز کے قریب نہ جائو اس حال میں کہ تم نشے کی حالت میں ہو‘یہاں تک کہ تمہیں معلوم ہو جو کچھ تم کہہ رہے ہو‘‘ اس کے بعدسورۃ المائدۃ میں شراب کی حرمت کا آخری حکم آیاجس کا انداز بڑا تیکھا سا تھا. فرمایا: ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّنۡتَہُوۡنَ ﴿۹۱﴾ (المائدۃ) ’’پس اب بھی تم باز آتے ہو یا نہیں؟‘‘ اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بعض کو بہت تشویش ہوئی کہ ہم اتنا عرصہ شراب پیتے رہے‘ حالانکہ شراب کی حرمت کے اشارات آنے کے فوراً بعد ہی ہمیں شراب چھوڑ دینی چاہیے تھی. اس موقع پر یہ آیت اُتری جس میں فرمایا گیا: لَیۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیۡمَا طَعِمُوۡۤا ’’ان لوگو ں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے‘ کوئی گناہ نہیں ہے اس میں جو وہ(پہلے) کھا پی چکے‘‘.یعنی جو لوگ اسلام اور ایمان پر کاربند ہو کر عمل کرتے رہے تو شراب کی حرمت کے آخری حکم کے آنے سے پہلے وہ جو کچھ کھاتے پیتے رہے ‘اس میں کوئی حرج نہیں ہے.آگے فرمایا: اِذَا مَا اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اٰمَنُوۡا ثُمَّ اتَّقَوۡا وَّ اَحۡسَنُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۹۳﴾ ’’ جب تک وہ تقویٰ کی روش اختیار کیے رکھیں اور ایمان لائیں اور نیک عمل کریں ‘پھر مزید تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لائیں‘ پھر اور تقویٰ میں بڑھیں اور درجہ ٔ احسان پر فائز ہو جائیں . اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.‘‘

اس آیت میں تین درجے بیان کیے گئے ہیں .پہلا درجہ ’اسلام‘ ہے ‘یعنی اللہ اور رسولؐ کو مان کر ان کے احکام پر عمل شروع کردینا. اس سے اوپر کا درجہ ’ایمان‘ ہے‘ یعنی دِل کا کامل یقین‘ جو ایمان کے دل میں اُتر جانے سے حاصل ہوتا ہے.ایمان حاصل ہوجانے کے بعد اعمال کی کیفیت بدل جائے گی اور اس میں ایک نئی شان اور جذبہ پیدا ہوگا. اس سے بھی آگے جب ایمان ’’عین الیقین ‘‘کا درجہ حاصل کر لے تو یہ درجہ’احسان‘ ہے.اس کی تفصیل ہم حدیث ِجبریل میں پڑھ چکے ہیں رسول اللہ نے احسان کی کیفیت ان الفاظ میں بیان فرمائی: اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَـکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (۱’’یہ کہ تواللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تواسے دیکھ رہا ہے ‘اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا (یہ کیفیت پیدا نہیں ہو رہی) تو پھر (یہ کیفیت تو پیدا ہونی چاہیے کہ) وہ توتجھے دیکھتا ہے‘‘پھر ہم نے دین کی حقیقت کے بارے میں حضر ت (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب سؤال جبریل النبی عن الایمان والاسلام والاحسان… وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان الایمان والاسلام والاحسان. معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث میں بڑی تفصیل سے پڑھا تھا اور اسی کا تقریباً خلاصہ زیرمطالعہ حدیث میں آج ہم پڑھیں گے.

وہ طویل حدیث میں نے حدیث جبریل کے ساتھ اسی لیے بیان کر دی تھی کہ یہ دونوں احادیث میرے نزدیک دین کی حقیقت اور اس کے اجزاء کے مابین نسبت و تناسب کو سمجھنے سمجھانے کے لیے نہایت اہم اور جامع ہیں.حضرت معاذؓ سے مروی وہ طویل حدیث سنن نسائی‘ سنن ابن ماجہ‘ سنن الترمذی‘ مسند احمد اور مسند بزار میں ہے اور امام ترمذی نے اس کو حسن صحیح قرار دیا ہے.اب یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ امام نوویؒ نے اس حدیث کو چھوڑ کر زیر مطالعہ مختصرروایت کو اپنی اربعین میں کیوں بیان کیا ہے. حالانکہ دونوں روایات حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں‘ دونوں کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور ان دونوں کے بارے میں امام ترمذی کا کہنا ہے کہ یہ احادیث حسن صحیح ہیں.مجھے اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ امام نوویؒ چونکہ ایک مختصر کتاب مرتب کررہے تھے لہٰذا انہوں نے اس میں طویل حدیث کے بجائے زیر مطالعہ مختصر حدیث کو شامل کیا ہے. واللہ اعلم!