اس نصیحت کے بعد رسول اللہ  نے حضرت معاذ کو ’’ارکانِ اسلام‘‘پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی اور فرمایا: وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ ‘ وَتُؤْتِی الزَّکَاۃَ ‘ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ ‘ وَتَحُجُّ الْبَیْتَ ’’اور تم نماز قائم کرو ‘ زکوٰۃ ادا کرو‘ رمضان المبارک کے روزے رکھو اور اللہ تعالیٰ کے گھر کا حج کرو‘‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی متفق علیہ حدیث میں ان کو ’ارکانِ اسلام‘قرار دیا گیا ہے . 

بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ: شَھَادَۃِ اَنْ لاَ اِلٰــہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہِ‘ وَاِقَامِ الصَّلاَۃِ‘ وَاِیْـتَائِ الزَّکَاۃِ‘ وَحَجِّ الْبَیْتِ‘ وَصَوْمِ رَمَضَانَ 
(۱
’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے : گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد ( ) اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں‘ نماز قائم کرنا‘ زکوٰۃ ادا کرنا‘ بیت اللہ کا حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا.‘‘

ان ارکانِ اسلام کی بنیاد پر ہمارے معاشرے کا ایک خاص رنگ بنتا ہے اور انہی کے بل بوتے پر ہماری ایک خاص تہذیب وجود میں آتی ہے. اصل میں اسلامی زندگی کا ایک خاص تمدن ہے جس کی تشکیل نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ اور حج سے ہوتی ہے.

یہاں تک تو حضوراکرم نے حضرت معاذ ؓ کے جواب میں یہ دو باتیں فرمائیں‘ اس کے بعد اب حضور نے خود حضرت معاذ سے پوچھا: اَلَا اَدُلُّکَ عَلٰی اَبْوَابِ الْخَیْرِ؟ ’’کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ خیر کے دروازے کون کون سے ہیں؟‘‘یعنی کیا میں تمہیں وہ اعمال نہ بتاؤں جن سے تمہیں خیر ہی خیر حاصل ہو! پہلی بات آپؐ نے یہ فرمائی: الصَّوْمُ جُنَّـۃٌ ’’روزہ ڈھال ہے‘‘ .یعنی روزہ نفس کے حملوں کے خلاف ایک ڈھال ہے.(ایک حدیث کے ضمن میں ہم اس پر گفتگو کر چکے ہیں.) دوسری بات آپؐ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب بنی الاسلام علی خمس.وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان ارکان الاسلام. نے یہ فرمائی: وَالصَّدَقَۃُ تُطْفِیُٔ الْخَطِیْئَۃَ کَمَا یُطْفِیُٔ الْمَائُ النَّارَ ’’اور صدقہ گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے‘‘.یعنی اگر کوئی خطا ہو گئی‘کوئی گناہ سرزد ہوگیا تو اللہ کی راہ میں صدقہ دو تویہ صدقہ اس گناہ کے اثرات کو اس طرح دھو دے گا جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے. صدقہ کے حقیقی مفہوم اور اس کی وسعت کے بارے میں تفصیلی گفتگو حدیث ۲۵ اور ۲۶ کے ضمن میں ہو چکی ہے.