تیسری بات آپ یہ فرمائی: وَصَلَاۃُ الرَّجُلِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ ’’ بندے کا رات کے درمیانی حصے میںنماز پڑھنا(بہت فضیلت کا باعث ہے)‘‘. رات کے درمیان میں پڑھی جانے والی نماز کوعرفِ عام میں’’ تہجد‘‘کہا جاتاہے. عام طور پر بعض لوگ اذانِ فجر سے کچھ دیر پہلے جاگ کر جلدی سے آٹھ نفل پڑھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے تہجد پڑھ لی. درحقیقت یہ تہجد نہیں ‘عام نوافل ہیں جنہیں فجر کا ضمیمہ بنالیاگیاہے. بہرحال یہ بھی فضیلت و برکت والا عمل ہے اور اس پر بھی اللہ تعالیٰ اجر و ثواب سے نوازے گا. لیکن اصل میں تہجد اسے کہا جاتا ہے کہ رات کو سو کر‘ نیند کو توڑ کر اٹھنا‘ نوافل ادا کرنا ‘پھر سو جانا اور پھر فجر کے لیے دوبارہ اٹھنا.یعنی جب نصف رات گزر جائے تو اس وقت انسان بیدار ہو کر ثلث رات تک نوافل پڑھے اور پھر سو جائے اورپھر طلوعِ صادق کے وقت فجر کے لیے اٹھے .حضوراکرم کے الفاظ بھی اسی طر ف اشارہ کرتے ہیں‘ اس لیے کہجَوْف کہتے ہیں پیٹ کو اور جَوْفِ اللَّیْل کا معنی ہے رات کا درمیانی حصہ!

اس کے بعد آپ نے اپنے اس قول وَصَلَاۃُ الرَّجُلِ فِیْ جَوْفِ اللَّیْلِ کے لیے سورۃ السجدۃ کی آیات ۱۶ تا ۱۷ تلاوت فرمائیں‘ جن میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایاہے: 

تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمۡ عَنِ الۡمَضَاجِعِ یَدۡعُوۡنَ رَبَّہُمۡ خَوۡفًا وَّ طَمَعًا ۫ وَّ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿۱۶﴾ 

’’(راتوں کو) ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں اوروہ اپنے رب کو پکارتے رہتے ہیں خوف اور امید کی کیفیت میں‘اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے (ہماری رضا جوئی کے لیے ) خرچ کرتے ہیں.‘‘

انہیں اللہ کے مواخذے ‘ اس کی ناراضگی اور اس کے عذاب کاخوف ہوتاہے‘جبکہ انہیں اللہ کی طرف سے اجر و ثواب کی طمع ہوتی ہے.سب سے بڑی طمع انہیں یہ ہوتی ہے کہ اللہ مجھ سے راضی ہو جائے‘ اس لیے کہ سب سے اونچا مقام یہی ہے : رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ (البینۃ:۸’’اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے‘‘. یہ اللہ اور بندے کی باہمی رضا ہے. بندہ اپنے رب سے راضی رہے بایں طور کہ دنیا میں جو بھی مصائب اور تکالیف آئیں ان پر کوئی شکوہ زبان پر نہ لائے. بس یہی سوچے کہ یہ میرے رب کی طرف سے ہے جو میراآقا‘ میرا دوست اور میرا سب سے بڑا خیر خواہ ہے. اسے معلوم ہے کہ اس چیز کے پیچھے کیا خیرہے اور کیا شر‘ اورکون سی چیز میرے لیے بہتر ہے اور کون سی بری.اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرۃ میں فرمایا: 

وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ 

’’اورہو سکتا ہے کہ تم کسی شے کو ناپسند کرواور وہ تمہارے لیے بہتر ہو.اور ہو سکتا ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو درآنحالیکہ وہی تمہارے لیے بری ہو.اور اللہ جانتا ہے‘ تم نہیں جانتے.‘‘

اگرہم اس کیفیت کے اندر دنیوی زندگی گزاریں تو اللہ ہم سے راضی ہوجائے گااور پھر آخرت میں ہمیں بھی راضی کر دے گا.یہ باہمی رضا کا معاملہ ہے اور یہ درحقیقت تہجد سے حاصل ہوتاہے. 

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب بندوں کے لیے کیا کچھ تیار کررہا ہے‘اس کا اندازہ لگانا انسان کے بس کی بات نہیں اور نہ ہی انسانی سوچ وہاں تک پہنچ سکتی ہے.اس ضمن میں فرمایا: 

فَلَا تَعۡلَمُ نَفۡسٌ مَّاۤ اُخۡفِیَ لَہُمۡ مِّنۡ قُرَّۃِ اَعۡیُنٍ ۚ جَزَآءًۢ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۷﴾ 

’’تو کوئی انسان نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ چھپا کر رکھا گیا ہے ‘اُن کے اعمال کے بدلے کے طور پر.‘‘ قرآن مجید میں جنت کی جتنی بھی نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ان میں سے اکثر کا تعلق اہل جنت کی ابتدائی مہمانی سے ہے‘اور اس کے لیے الفاظ بھی وہ استعمال کیے گئے ہیں جو ہماری ذہنی سطح کے قریب ہیں‘مثلاً وہاں پر پھل ہوں گے ‘ شہد اور دودھ کی نہریں ہوں گی‘ایسی خالص شراب ہو گی جس میں نہ کوئی نشہ ہو گا اور نہ ہی کوئی بہکنے کی بات ہو گی ‘ جوان اور ہم عمر حوریں ہوں گی‘وغیرہ. یہ ساری نعمتیں تو ابتدائی جنت کی ہیں‘ لیکن اللہ کے خاص بندوں کو رفتہ رفتہ جنت کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات میں لے جایا جائے گااور وہاں کی نعمتوں کا نہ تو کسی کو علم ہے اور نہ ہی ان کا تصور انسانی فہم و ادراک میں آ سکتا ہے. رسول اللہ نے ان نعمتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: 

قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ : اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالاَ عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍٍ 
(۱
’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے (جنت میں) وہ کچھ تیار کر رکھاہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا گمان ہی گزرا.‘‘