جہاد کے معنی لوگوں نے صرف جنگ کے سمجھے ہیں.حقیقت میں ایسا نہیں ہے‘ اس لیے کہ جنگ کے لیے تو قرآن کی اصطلاح قتال فی سبیل اللہ ہے . سورۃ الصف میں یہ دونوں الفاظ آئے ہیں. آیت ۱۰۱۱ میں فرمایا گیا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہَلۡ اَدُلُّکُمۡ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنۡجِیۡکُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿۱۰﴾تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُجَاہِدُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ بِاَمۡوَالِکُمۡ وَ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾ 

’’اے ایمان کے دعوے دارو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت کے بارے میں بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے چھٹکارا دلا دے؟ (وہ یہ کہ) تم ایمان لاؤ اللہ اور اُس کے رسول ؐ پر اور جہاد کرو اللہ کے رستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ. یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو.‘‘
اس آیت سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ جہاد کے بغیر جہنم سے چھٹکارا پانے کا خیال ایک امیدِ موہوم اوربے بنیاد تمناہے.ان آیات میں تو جہادکا تذکرہ ہے‘ جبکہ آیت ۴ میں قتال کا ذکر ہے.فرمایا: 

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ 

’’اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اُس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں‘جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں.‘‘

لہٰذا ثابت ہوا کہ قتال فی سبیل اللہ الگ شے ہے اور جہاد فی سبیل اللہ الگ. حضوراکرم کے بارہ سالہ مکی دور میں قرآن کے ذریعے سے جہاد فی سبیل اللہ ہو رہا (۱) سنن النسائی‘ کتاب الجھاد‘ باب التشدید فی ترک الجھاد. تھا‘دعوت و تبلیغ‘ تربیت وتزکیہ اور تنظیم جیسے ذرائع سے جہاد ہو رہا تھا‘ جبکہ مدینہ میں پہنچ کر یہ جہاد قتال کی شکل اختیار کر گیا .

اس اعتبار سے نوٹ کر لیجیے کہ جہاد صرف جنگ کا نام نہیں ہے.اللہ کے دین کو اپنے اوپر نافذ کرنا سب سے بڑا جہاد ہے .دوسرا بڑا جہاد ہے اللہ کے دین کی دعوت و تبلیغ اور اس مقصدکے لیے جان و مال کھپانا اور وقت لگانا.تیسرا بڑا جہاد ہے: اللہ کے دین کے غلبہ کی جدوجہد کرنا.آپ سب سے پہلے اپنی ذات اور اپنے گھر والوں پر اللہ کے دین کو نافذ کریں اور پھر اللہ کا دین لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں. جو لوگ بھی آپ کی پکار پر خلوصِ دل کے ساتھ لبیک کہیں ‘انہیں منظم کریں اور ان کو سمع وطاعت کا خوگر بنائیں اور جب معتد بہ تعداد میں لوگ جمع ہوجائیں تو پھر جہاد کا بلند ترین درجہ آئے گا‘ اور وہ ہے اللہ کے دین کے غلبہ کی جدوجہد کے لیے قتال کرنا.

صاف ظاہر ہے کہ جب تک مناسب تعداد میں لوگ موجود نہ ہوں اور ان کی پوری طرحٹریننگ بھی نہ ہوئی ہو تواُس وقت تک جنگ نہیں کی جا سکتی. یہ تو خود کشی کے مترادف ہے. ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ جہاد توکر رہے ہوں‘ لیکن انہیں مخلص لوگوں کی اتنی تعداد میسر ہی نہ ہو کہ وہ قتال کر سکیں تو صرف جہاد ہی ان کی نجات کے لیے کافی ہو جائے گا.البتہ اگر اللہ کی توفیق سے اس معاشرے سے response مل جائے اور معتدبہ تعداد میں لوگ منظم بھی ہو جائیں اور انہوں نے اپنے اوپر اللہ کے دین کو نافذ بھی کرلیا ہو یہ نہیں کہ اپنے اوپر‘ اپنے گھر میں تو دین ہے نہیں اور باہر دین نافذ کرتے پھریں پھر انہوں نے کسی ایک امیر کے ہاتھ پر بیعت سمع و طاعت اور بیعت جہاد بھی کر لی ہو اور ان کے دلوں سے سوائے اللہ کی رضااور آخرت کی فلاح کی ہر امنگ نکل گئی ہوتو اس وقت نظامِ باطل کے ساتھ جا ٹکرانے اورقتال کا مرحلہ آئے گا.
اس ضمن میں یہ بھی یاد رہے کہ نیت بالکل خالص ہونی چاہیے اس مجموعہ کی پہلی حدیث میں ہم نے پڑھا تھا : 

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّـیَّاتِ وَاِنَّمَا لِکُلِّ امْرِیٍٔ مَا نَوٰی ‘ فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ ٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَھِجْرَتُہٗ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ‘ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہٗ لِدُنْیَا یُصِیْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ یَنْکِحُھَا فَھِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَـیْہِ (متفقٌ علیہ) 

’’بے شک اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہو گی. پس جس شخص کی ہجرت اللہ اور اُس کے رسول کی طرف ہو ئی‘ تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسولؐ ہی کے حساب میں شمارہوگی.اور جس کی ہجرت ہوئی دنیا کے حصول کے لیے تاکہ دنیا حاصل کرے یا کسی عورت سے نکاح کی خاطر ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی چیز کے لیے شمار ہو گی جس کے لیے اس نے ہجرت کی .‘‘

اگریہ قتال مالِ غنیمت یا حکومت حاصل کرنے کے لیے ہے یا کسی قبیلے سے کوئی دشمنی چلی آ رہی ہے اور اب اس سے بدلہ لینے کی نیت سے جہاد میں شریک ہورہے ہیں تو یہ قتال فی سبیل اللہ نہیں‘ قتال فی سبیل النفس ہے.