حدیث کے آخر میں رسول اللہ نے فرمایا: اَلَا اُخْبِرُکَ بِمَلَاکِ ذٰلِکَ کُلِّہٖ؟ ’’اے معاذ! میں تمہیںان تمام معاملات کی روح کے بارے میں بتاؤں؟‘‘ یعنی کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو ان تمام اجزاء کو جوڑنے والی ہے اور ان کو صحیح رخ پر اور صحیح روح کے ساتھ آگے بڑھانے والی ہے!مَلَاک کہتے ہیں روح اور مغز کو. عرب کہتے ہیں: اَلْقَلْبُ مَلَاکُ الْجَسَدِ ’’دل پورے جسم کے لیے ملاک ہے‘‘ یعنی دل پورے جسم کا روحِ رواں ہے. دل ہے تو زندگی ہے اور اگردل بند ہو جائے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے.یہاں بھی آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں اس تمام معاملے کی روح کے بارے میں نہ بتاؤں؟ حضرت معاذ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسول ! ضرور فرمایئے. فَاَخَذَ بِلِسَانِہٖ ’’پس حضور نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا‘‘ اور فرمایا: کُفَّ عَلَیْکَ ھٰذَا ’’اس کو روک کر رکھو‘‘.یعنی زبان سے کوئی غلط اور ظالمانہ کلمہ نہ نکلے‘ کوئی غیبت اور کوئی تہمت برآمد نہ ہو‘خواہ مخواہ کسی کی عزت کے اوپر حملہ نہ ہو.زبان کو اپنے قابو میں رکھواورجب بھی زبان کھولوتو حق اور سچ کی بات کرو.یہ بات قرآن مجید میں بھی آئی ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾ (الاحزاب) ’’اے اہل ِایمان !اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور بات کیا کرو سیدھی سچی‘‘. اگر یہ دو کام ہو جائیں یعنی دل میں تقویٰ ہو اور زبان پر مکمل کنٹرول ہو تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ: یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ ’’اللہ تمہارے سارے اعمال درست کردے گا اور تمہاری خطائیں بخش دے گا‘‘.ایک حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں.

مَنْ یَتَکَفَّلْ لِی مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ أَتَکَفَّلْ لَہُ بِالْجَنَّۃِ 
(۱
’’جو شخض مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں.‘‘

زیر مطالعہ حدیث میں بھی آپ نے فرمایا کہ اپنی زبان کوقابومیں رکھو.اس پرحضرت معاذ ؓ کی سادگی دیکھئے حضرت معاذ وہ ہیں جن کے بارے میں حضوراکرم نے فرمایا: اَعْلَمُھُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ (۲کہ میرے صحابہ میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ جاننے والامعاذ بن جبل ہے! یعنی ہم یوں کہیں گے کہ فقہ کے سب سے بڑے ماہر معاذبن جبل ہیں وہ اس بات پر حیران ہو کر کہتے ہیں: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! وَاِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَـکَلَّمُ بِہٖ؟ ’’اے اللہ کے نبی ! کیا ہمارا اس پر بھی مواخذہ ہو گا جو ہم کلام کرتے رہتے ہیں‘‘.ظاہر بات ہے آدمی جب دوستوں کے اندر بیٹھا گپ شپ کرتا ہے تو اُس وقت زبان پر کنٹرول نہیں رہتا. اس وقت تو جو منہ میں آیا کہہ دیا. اب اس میں غیبتیں بھی ہو رہی ہیں‘ غلط باتیں بھی ہو رہی ہیں‘جھوٹ بھی بولا جا رہا ہے … تو حضرت معاذؓ نے پوچھا: اے اللہ کے نبی ! یہ جو ہم باتیں کرتے رہتے ہیں کیا اس پر بھی ہمارا مواخذہ ہو گا؟

اس سوال کے جواب میں حضور کی محبت اور شفقت ملاحظہ ہو. آپؐ نے (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الزھد‘ باب ما جاء فی حفظ اللسان.
(۲) سنن الترمذی‘ ابواب المناقب‘ باب مناقب معاذ بن جبل .وسنن ابن ماجہ‘ المقدمۃ‘ باب فضائل خباب. 
فرمایا: ثَـکِلَتْکَ اُمُّکَ یَا مُعَاذُ! ’’اے معاذ! تمہیں تمہاری ماں گم کرے‘‘. یعنی تمہاری گمشدگی پریا تمہاری غیر حاضری پر تمہاری ماں روئے عربوں کے ہاں یہ جملہ لاڈ پیار سے بھی بولا جاتاتھا وَھَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ اَوْ قَالَ عَلٰی مَنَاخِرِھِمْ‘ اِلاَّ حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ ’’لوگوں کو ان کے چہروں کے بل جہنم میں جھونکنے والی سب سے بڑی شے زبان کی کٹائی (کمائی) ہی تو ہو گی‘‘. حَصِیْد کہتے ہیں اس فصل کو جومکمل طور پر کٹ گئی ہو ‘جیسے گندم کا پودا پورے کا پورا کاٹا جاتا ہے .گویا حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ کا مفہوم یہ ہے کہ زبان سے جو بھی لفظ نکلتا ہے وہ آخرت کے اندر ایک بیج بن کر وہاں پروان چڑھتا ہے .لہٰذا جو فصلیں زبانوں سے بو ئی جا رہی ہیں‘کل قیامت کے دن جب یہ کٹیں گی تو یہی سب سے بڑھ کر انسانوں کو جہنم میں جھونکنے کا باعث بنیں گی.

اللہ تعالیٰ ہمیں اس حدیث میں بیان کردہ حکمت اور بھلائی کی باتوں پر صحیح جذبے اور خلوصِ نیت کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین یا ربّ العالمین! 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمُسلمات