اس ضمن میں یہ نوٹ کرلیجیے کہ بعد والے تین جملوں کے مضامین کی احادیث اس سے پہلے بھی ہم پڑھ چکے ہیں‘ چنانچہ اربعین کی حدیث ۹ کے الفاظ ملاحظہ ہوں.سیدنا ابوہریرہ عبدالرحمن بن صخر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:
 
مَا نَھَیْتُـکُمْ عَنْہُ فَاجْتَنِبُوْہُ، وَمَا اَمَرْتُکُمْ بِہٖ فَافْعَلُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَاِنَّمَا اَھْلَکَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کَثْرَۃُ مَسَائِلِھِمْ وَاخْتِلَافِھِمْ عَلٰی اَنْبِیَائِھِم 
(۱
’’میں تمہیں جس کام سے منع کروں اس سے باز رہو ‘اور جس کام کا حکم دوں اسے بقدر استطاعت بجا لاؤ. کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو ان کے کثرتِ سوالات اور انبیاء سے اختلاف ہی نے ہلاک کر ڈالا تھا.‘‘

اس حدیث میں وہی بات آرہی ہے جو زیر مطالعہ حدیث کے چوتھے جملے میں بیان ہوئی ہے کہ جن چیزوں کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول نے سکوت اختیار فرمایا ہے ‘ تمہارے لیے بھی یہی بہتر ہے کہ ان چیزوں میں سکوت اختیار کرو اور ان کی کھود کرید میں نہ پڑو.
اسی طرح اربعین کی حدیث ۶میں زیرمطالعہ حدیث کے درمیانی دونوں جملوں کے مضمون کا تذکرہ ہے.ابوعبداللہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہماکہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کویہ فرماتے ہوئے سنا: 

اِنَّ الْحَلَالَ بَـیِّنٌ‘ وَاِنَّ الْحَرَامَ بَـیِّنٌ ‘ وَبَیْنَھُمَا اُمُوْرٌ مُشْتَبِھَاتٌ لَا یَعْلَمُھُنَّ کَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ‘ فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَأَ لِدِیْنِہٖ وَعِرْضِہٖ ‘ وَمَنْ وَقَعَ فِی الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِی الْحَرَامِ‘ کَالرَّاعِی یَرْعٰی حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یَّرْتَعَ فِیْہِ ‘ اَلاَ وَاِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حِمًی ‘ اَلاَ وَاِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہٗ ‘ اَلاَ وَاِنَّ فِی الْجَسَدِ مُضْغَۃً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ ‘ وَاِذَا فَسَدَتْ 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘ باب الاقتداء بسنن رسول اللّٰہ . وصحیح مسلم‘ کتاب الفضائل‘ باب توقیرہ وترک اکثار سؤالہ… واللفظ لہ ْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ ‘ اَلَا وَھِیَ الْقَلْبُ (۱

’’حلال چیزوں کا حکم بالکل واضح ہے اور حرام چیزوں کا حکم بھی واضح ہے‘ ان دونوں (حلال و حرام) کے درمیان کچھ امورمتشابہ ہیں جن کی حلت و حرمت کو اکثر لوگ نہیں جانتے .پس جو شخص اس قسم کی غیر واضح اشیاء سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا‘ اور جو شخص اس قسم کے امور کو اختیار کرنے لگے وہ حرام میں جا پڑے گا‘ جیسا کہ کوئی چرواہا مخصوص چراگاہ کے آس پاس جانوروں کو چرائے تو ہو سکتا ہے کہ جانور چراگاہ میں جا پہنچیں. خبردار! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی چراگاہ سے مراد اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں. خبردار!جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے‘ اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے . خبردار! وہ گوشت کا ٹکڑا دل ہے.‘‘