الغرض زیر مطالعہ حدیث کے آخری تین جملوں سے ملتی جلتی احادیث اس سے پہلے بھی ہم پڑھ چکے ہیں.اس بارے میں صرف ایک بات نوٹ کر لیجیے کہ یہاں فرمایا: وَحَدَّ حُدُوْدًا فَلَا تَعْتَدُوْھَا ’’کہ اللہ نے کچھ حدود مقرر کی ہیں تو ان سے تجاوز نہ کرو‘‘.جبکہ قرآن مجید میں ان حدود اللہ کے بارے میں فَلَا تَعْتَدُوْھَا کے بجائے فَلاَ تَقْرَبُوْہَا آیا ہے : تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا ؕ (البقرۃ:۱۸۷’’یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی ) حدود ہیں‘ پس ان کے قریب بھی مت جاؤ‘‘. ایک تو یہ ہے کہ آپ نے ان حدود کو کراس کر لیا اوران سے تجاوزکرگئے. یہ تو گویا معاملہ بہت ہی آگے بڑھ گیا‘جبکہ ایک یہ ہے کہ آپ نسیان یامعصیت میں اس کے قریب پہنچ گئے ہیں. قریب پہنچ جانے کے بعد پھر وہی اندیشہ ہے کہ کہیں آپ باقاعدہ حرام کے اندر ملوث نہ ہوجائیں تو اس لیے فرمایا کہ فَلَا تَقۡرَبُوۡہَا ؕ ان کے قریب بھی نہ پھٹکو. (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب فقل من استبرأ لدینہ .وصحیح مسلم‘ کتاب المساقاۃ‘ باب اخذ الحلال وترک الشبہات. آپ کے علم میں ہے کہ یہی لفظ قرآن میں زنا کے بارے میں بھی آیا ہے: وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا ﴿۳۲﴾ (بنی اسراء یل) ’’اور زنا کے قریب بھی مت جائو ‘اس لیے کہ وہ بڑی بے حیائی کی بات ہے‘ اور بہت برا راستہ ہے‘‘. احادیث میں آتا ہے کہ آنکھوں کا بھی زنا ہے‘کانوں کا بھی زنا ہے‘ہاتھ اور پاؤں کا بھی زنا ہے.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہنبی اکرم نے فرمایا: 

إِنَّ اللَّہَ کَتَبَ عَلَی ابْنِ آدَمَ حَظَّہُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَکَ ذٰلِکَ لَا مَحَالَۃَ، فَزِنَا الْعَیْنَیْنِ النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ النُّطْقُ، وَالنَّفْسُ تَمَنَّی وَتَشْتَہِی، وَالْفَرْجُ یُصَدِّقُ ذٰلِکَ أَوْ یُکَذِّبُہُ 
(۱

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر زنا سے اُس کا حصہ لکھ دیا جسے وہ ضرور حاصل کرے گا .آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے ‘اور زبان کا زنا بات چیت ہے ‘اور دل تمنا اور خواہش کرتا ہے ‘اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے.‘‘

آنکھوں کا زنا یہ ہے کہ نامحرم خاتون کو بار بار دیکھنا .ایک دفعہ نگاہ پڑ گئی تووہ معاف ہے‘ اس لیے کہ وہ غیر اختیاری ہے‘لیکن اگر آپ نے دوبارہ مڑ کر دیکھا ہے تو یہ آپ کا اختیاری فعل ہے اور اس پر پکڑہوگی.کانوں کا زنا یہ ہے کہ نامحرم عورتوں کی آواز سننا. ظاہر بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس صنف نازک میں مردوں کے لیے ایک خاص حکمت کے تحت کشش (attraction) رکھی ہے . اگر یہ کشش نہ ہوتی تو تمدن اور تہذیب کا یہ سارا معاملہ کیسے چلتا . کون شادی کرکے اتنا بڑا کھکیڑ مول لیتا. کہاں ایک پیٹ پالنا اورکہاں آٹھ دس پیٹوں کے لیے انتظام کرنا. لیکن اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے عورت کے اندر اتنی کشش رکھ دی ہے کہ اس کی آوازکے اندر بھی ایک سریلا پن ہوتا ہے جس میں جاذبیت ہوتی ہے. چنانچہ سورۃ الاحزاب میں حضور کی ازواجِ مطہراتؓ سے بھی کہا گیا ہے کہ اگر وہ غیر محرم لوگوں سے بات کر رہی ہوں توگفتگو میں نرمی پیدا نہ کریں مطلب یہ ہے کہ حضور نے کسی کو بھیجا کہ میری فلاں زوجہ کے گھر سے (۱) صحیح مسلم‘ کتاب القدر‘ باب قدر علیٰ ابن ٓادم حظہ من الزنا وغیرہ. فلاں چیز لے آئیں تو ان سے پردے کے پیچھے سے بات کرنے کے حوالے سے حکم دیا گیا کہ اے نبی کی بیویو! فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ (آیت ۳۲’’ گفتگو میں اپنی آواز میں لوچ مت پیدا کرو‘‘.الغرض نسوانی آواز کا سننا گویا کانوں کا زنا ہے. ہاتھ کا زنا لمس اور چھونا ہے اور اس کے بعد ظاہر بات ہے کہ شرمگاہیں پھر اس عمل کی تکمیل کرتی ہیں جسے عرفِ عام میں ہم ’’زنا‘‘سے تعبیرکرتے ہیں.