بہرحال زیر مطالعہ حدیث میں بیان کردہ آخری تین چیزیں ماقبل احادیث میں بھی آئی ہیں‘ لہٰذا میں ان کے بجائے زیر مطالعہ حدیث کے پہلے جملے پر زیادہ زور دینا چاہتا ہوں. وہ یہ ہے کہ فرائض کون سے ہیں جو اللہ نے ہمارے اوپر لازم اور واجب کر دیے ہیں.ظاہر ہے ان کی فہرست بنائی جائے تو وہ بہت طویل ہو جائے گی ‘بایں طور کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی طر ف سے امر کا صیغہ آیا ہے‘ وہ گویا اللہ کی طرف سے اس شے کی فرضیت کا اعلان ہے. اس ضمن میں چند آیات ابتدا میں ‘میں نے آپ کو سنائی ہیں.ان آیات کی تفصیل میں جائے بغیران کا متن اور ترجمہ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں تاکہ آپ کو معلوم ہوسکے کہ فرائض کی لسٹ کتنی لمبی ہے.

ایمان کے حوالے سے حکم ہوا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ (النسائ:۱۳۶’’اے ایمان کے دعوے دارو! ایمان لائو اللہ پر اور اُس کے رسول پر (جیسا کہ اس کا حق ہے)‘‘.پھر آپ کو معلوم ہے کہ ارکانِ اسلام میں سے دویعنی نماز اور زکوٰۃ کا تو بار بار قرآن مجید میں ذکر آتا ہے‘مثلاًسورۃ البقرۃ میں فرمایا: وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾ ’’اورنماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ‘‘.پھر نمازِ جمعہ کاخصوصی ذکر بھی کیا گیا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ (الجمعۃ:۹’’اے ایمان والو! جب تمہیں پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو لپکو اللہ کے ذکر کی طرف اور کاروبار چھوڑ دو‘‘. روزے کے بارے میں فرمایا: شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ (البقرۃ:۱۵۸’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کی روشن دلیلوں کے ساتھ‘پس جو کوئی بھی تم میں سے اس مہینے کو پائے اس پر لازم ہے کہ وہ اس کے روزے رکھے‘‘. آگے مریض اور مسافر کے لیے رعایت بیان کر دی گئی کہ وہ بعد ازاں روزے رکھ کر گنتی پوری کر لیں. حج کے بارے میں فرمایا: وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الۡبَیۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۷﴾ (البقرۃ) ’’اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر کہ وہ حج کریں اُس کے گھر کا‘ جو بھی استطاعت رکھتا ہو اس کے سفر کی‘ اور جس نے کفر کیا تو (وہ جان لے کہ) اللہ بے نیاز ہے تمام جہان والوں سے‘‘. یعنیاگر کوئی سفر کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتا تو گویا وہ کفر کا مرتکب ہورہا ہے اوراللہ تعالیٰ کو ایسے شخص کی کوئی پروا نہیں ہے.

اسی طرح اسلام کے بارے میں فرمایا: فَلَہٗۤ اَسۡلِمُوۡا ؕ وَ بَشِّرِ الۡمُخۡبِتِیۡنَ ﴿ۙ۳۴﴾ (الحج) ’’پس اُسی کے سامنے سرتسلیم خم کر دو ‘اور (اے نبی ) بشارت دے دیجیے ان کو جو اپنے آپ کو جھکا دیتے ہیں (اللہ کے سامنے)‘‘.سورۃ البقرۃ میں فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ (آیت۲۰۸’’اے ایمان والو! اسلام میں داخل ہو جاؤ پورے کے پورے ‘‘. یعنی جزوی نہیں بلکہ پورے کا پورا اسلام اپنے اوپر نافذ کرو. اسی طرح اطاعت کے حوالے سے فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ (النسائ:۵۹’’اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو (اُس کے) رسول کی اور اُن کی جوتم میں سے صاحب امر ہوں.‘‘

تقویٰ کے حوالے سے فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ (آل عمران:۱۰۳’’اے اہل ایمان!اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے‘‘. اللہ کی عبادت کے حوالے سے حکم ہوا: فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ الرِّزۡقَ وَ اعۡبُدُوۡہُ وَ اشۡکُرُوۡا لَہٗ ؕ (العنکبوت:۱۷’’پس تم اللہ ہی کے پاس رزق کے طالب بنو اور اُسی کی عبادت کرو اور اسی کا شکر ادا کرو‘‘.اسی سورۃ میں آگے حکم ہوا: یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ اَرۡضِیۡ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ ’’اے میرے وہ بندو جو ایمان لائے ہو! میری زمین بہت وسیع ہے‘ پس تم میری ہی عبادت کرو‘‘.اس آیت میں یہ حکم بھی مضمر ہے کہ اگر کسی جگہ پر ایسا ماحول ہے کہ تم میری عبادت نہیں کرپارہے تو اس جگہ کو چھوڑ دو‘ وہاں سے ہجرت کرکے کسی ایسے علاقے میں چلے جاؤ جہاں تمہیں میری عبادت سے کوئی نہ روکے.

سورۃ المائدۃ میں فرمایا گیا: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ (آیت ۸’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بن جاؤ ‘‘ .یہی مضمون سورۃ النساء میں بھی آیا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ (آیت ۱۳۵)’’اے اہل ِایمان!کھڑے ہو جائو پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے اللہ کے گواہ بن کر‘‘ .جہاد کے بارے میں حکم ہوا: وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ (الحج:۷۷’’اوراللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ اس کی راہ میں جہاد کا حق ہے‘‘. اور پھر قتال کے بارے میں فرمایا: وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ (الانفال:۳۹’’اور (اے مسلمانو!)ان (کافر و مشرکین) سے جنگ کرتے رہویہاں تک کہ فتنہ (کفر) باقی نہ رہے اور دین کل کا کل اللہ ہی کا ہو جائے.‘‘

سورۃ الحج کی آخری سے پہلی آیت بہت جامع ہے اور اس میں چار احکام جمع کر دیے گئے ہیں: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾ ’’اے ایمان کے دعوے دارو! جھک جاؤ‘اور سر بسجود ہو جاؤ‘ اور اپنے رب کی بندگی کرو‘ اور نیک کام کرو تا کہ تم فلاح پاؤ!‘‘ اسی طرح سورۂ آلِ عمران کی آخری آیت میں بھی چار احکام بیان ہوئے ہیں : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَ صَابِرُوۡا وَ رَابِطُوۡا ۟ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۲۰۰﴾٪ ’’اے اہل ایمان! صبر کرو‘اور صبر میں اپنے دشمنوں سے بڑھ جائو‘اورآپس میں مربوط رہو‘اور اللہ کا تقویٰ اختیار کیے رکھو تاکہ تم فلاح پاؤ.‘‘