اب باری آئی دین کی تیسری چھت اور تیسری منزل کی ؏ اب جگر تھام کے بیٹھومیری باری آئی! اوریہ سب سے مشکل مقام ہے. دین کی تیسری منزل ہے: دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنا. دین اسلام ایک مکمل نظام ہے اوریہ صرف کوئی عقیدہ نہیں ہے .موجودہ عیسائیت نرا عقیدہ ہے ‘ اس میں اور کچھ نہیں ہے. شریعت بھی نہیں ہے‘نہ کوئی شے حلال ہے اورنہ حرام. اگرچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام یہ کہہ کر گئے تھے کہ شریعت موسوی تم پر لاگو رہے گی‘لیکن سینٹ پال نے اس کوساقط قرار دے دیا کہ شریعت ہم پر لاگونہیں ہے. لہٰذا موجودہ عیسائیت ایسا مذہب ہے جس میں شریعت ہے ہی نہیں اور وہ صرف اس عقیدے پر مشتمل ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مان لو اور اپنے دل میں اس کا یقین کر لو کہ تمہارے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے‘ اس لیے کہ مسیحؑ سولی پر چڑھ کر تمہاری طرف سے پہلے ہی کفارہ دے چکے ہیں. جو بھی اس عقیدے کو مان لے گا تواس کی طرف سے کفارہ ہو جائے گا. انا للہ وانا الیہ راجعون! قرآن تو کہتا ہے : وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ۚ (الانعام:۱۶۴’’کوئی جان دوسری کسی جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی.‘‘ 

بعض مذاہب کے اندر عقیدہ بھی ہے ‘ کچھ عبادات اور پوجا پاٹ بھی ہے ‘ لیکن اس سے آگے کوئی نظام نہیں ہے. نہ سیاسی نظام ہے‘ نہ معاشی نظام ہے‘نہ معاشرتی نظام ہے اور نہ فوجداری یا دیوانی قوانین ہیں. نہ کوئی سول قانون ‘ نہ کوئی قانونِ شہادت‘ اور نہ کوئی عائلی قوانین ہیں‘ کچھ بھی نہیں ہے. جبکہ اسلام کا معاملہ ایسا نہیں ہے . اسلام میں عقائد بھی ہیں‘ ایمانیات بھی اور عبادات نماز ‘ روزہ‘ حج اورزکوٰۃ بھی. پھر کچھ رسومات ہیں‘ مثلاً بچہ پیدا ہو گاتو اس کا ختنہ کرائیں گے‘ عقیقہ کرائیں گے. کوئی فوت ہو گا تو اس کو جلائیں گے نہیں‘ بلکہ اس کی تجہیز و تکفین کریں گے اور اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے. یہ رسومات ہیں. اس کے بعد اسلام کا معاشرتی نظام بھی ہے اور معاشی نظام بھی. اس کے فوجداری قوانین بھی ہیں‘ سول قوانین بھی‘دیوانی قانون بھی ‘قانونِ شہادت بھی ‘ عائلی قوانین بھی. پھر سب سے بڑھ کر اسلام کا ایک سیاسی نظام بھی ہے کہ اللہ کی حاکمیت اور اللہ کا قانون اس دنیا میں بالاتر رہے: لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ’’تاکہ اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہو جائے‘‘.یہ جان جوکھوں کا کام ہے اور یہی اسلام کی چوٹی اور بلند ترین منزل ہے. اب اس تیسری چھت کے لیے بھی چاراصطلاحات /الفاظ نوٹ کیجیے . دو اصطلاحات مکی قرآن میں بیان ہوئی ہیں اور دو اصطلاحات کا تذکرہ مدنی قرآن میں ہے.

۱) تکبیر رب: مکی قرآن میں بیان شدہ پہلی اصطلاح ہے : تکبیر رب! یعنی رب کو بڑا کرو. رب کو بڑا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس جگہ پر اللہ کی بڑائی نہیں مانی جارہی‘وہاں اُس کی بڑائی منوائی جائے. جہاں اس کا قانون نافذ نہیں ‘ اور اس کے احکام کے مطابق فیصلے نہیں ہو رہے وہاں اس کا قانون نافذ کیا جائے. سورۃ المائدۃ میں بڑے دوٹوک انداز میں فرمایا گیا ہے : وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۴۴﴾… فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۴۵﴾… فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿۴۷﴾ ’’اور جو اللہ کی اُتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں … وہی تو ظالم ہیں … وہی تو فاسق ہیں‘‘.یہ تو نام نہاد مسلمان ہیں اور انہوں نے اسلام کو صرف مذہب سمجھا ہے ‘لیکن بطور دین اور نظام کے نہیں سمجھا. آج پوری زمین پر ایسا کوئی خطہ نہیں ہے جہاں پر اللہ کا پورا دین قائم ہے.تو دنیا میں اللہ کے دین کو قائم کرنا اور اس کے قانون کو نافذ کرنا تکبیر رب ہے.
رسول اللہ پر نازل ہونے والی ابتدائی وحیوں میں سے سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات بھی ہیں جن میں تکبیر رب کا حکم ہے.فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ ’’اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے ( )! اٹھ کھڑے ہو اور (لوگوں کو) خبردار کرو! اور اپنے رب کو بڑا کرو!‘‘ہم نے سمجھ لیا ہے کہ تکبیر رب کے معنی ہیں اللہ کو بڑا کہنا‘ لیکن تکبیر کے معنی یہ نہیں ہیں. تکبیر کے معنی ہیں کسی شے کو بڑا کرنا اور تصغیر کے معنی ہیں کسی شے کو چھوٹا کرنا.

کتاب سے اسم تصغیر بنتا ہے’’ کتابچہ ‘‘کتاب بڑی تھی اور کتابچہ چھوٹا ہو گیا. تکبیر ربّ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بڑائی مانی جائے اوراس کی حاکمیت دنیا میں بالفعل قائم کی جائے. پھر یہ اصطلاح سورۂ بنی اسرائیل کے اختتام پر بھی آئی ہے: وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪ یعنی اسے اس طرح بڑا بنائو جیسے کہ اس کے بڑا ہونے کا حق ہے. ۲) اقامتِ دین: دین کی تیسری چھت کے حوالے سے یہ دوسری اصطلاح ہے. سورۃ الشوریٰ میں اس کا حکم دیا گیا ہے: اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ ’’کہ دین کو قائم کرو اور اس میں جھگڑا مت ڈالو‘‘.ہاں مذہب کی سطح پر اختلاف ہو جائے تو کوئی حرج نہیں. نماز میں ہاتھ سینے پر ہوں یا ناف پر یاکھول دیں‘اس اختلاف پر کوئی اعتراض نہیں ہے. اسی طرح رفع یدین کا معاملہ ہے‘جوبھی روایات آپ کو مضبوط معلوم ہوں ان کو اختیار کرلیں‘ کوئی مضائقہ نہیں. مذہب کی سطح پر کوئی اختلاف ہو جائے تو وہ قابل قبول ہے ‘لیکن دین کے معاملے میں اختلاف کسی صورت قابل قبول نہیں.

وہاں اختلاف کریں گے بھی کیسے؟کیا آپ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت میں اختلاف کریں گے؟اقامت دین کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو لازم پکڑو ‘ اللہ کا قانون نافذ کرو ‘ حدود اللہ کوقائم کرو ‘اور اس میں کسی اختلاف میں نہ پڑو. شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ (الشوریٰ:۱۳’’(اے مسلمانو!) اللہ نے تمہارے لیے دین میں وہی کچھ مقرر کیا ہے جس کی وصیت اس نے نوحؑ کو کی تھی اور جس کی وحی ہم نے (اے محمد ) آپ کی طرف کی ہے‘اور جس کی وصیت ہم نے کی تھی ابراہیم کواور موسیٰ کو اور عیسیٰ ( علیہم السلام)کو کہ قائم کرو دین کواور اس میں تفرقہ نہ ڈالو‘‘.یعنی نوح کا‘ابراہیم کا‘موسیٰ کا‘عیسیٰ ( علیہم السلام)کا اور اے محمد آپ سب کادین ایک ہے‘البتہ شریعتیں مختلف ہیں: لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا ؕ (المائدۃ:۴۸’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے ایک شریعت اور ایک راہِ عمل طے کر دی ہے‘‘.دیکھئے شریعت ِموسوی اور شریعت ِمحمد یؐ میں فرق رہے گا‘منہجِ عمل بھی تمام انبیاء ورسل کا ایک سا نہیں ہوسکتا‘ لیکن ہمارے لیے منہجِ نبوی کو اختیار کرنا لازم ہے.

۳اظھارُ دینِ الحقِّ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ: تیسری چھت یعنی دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کے حوالے سے مکی قرآن میں دو اصطلاحات بیان ہوئی ہیں: تکبیر رب اوراقامت دین. پھر اس ضمن میں دو ہی اصطلاحات مدنی قرآن میں بھی بیان ہوئی ہیں. پہلی اصطلاح ہے: اِظْھَارُ دِینِ الْحَقِ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ! ا ور یہ قرآن مجید میں تین مرتبہ آئی ہے: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ۙ (التوبۃ:۳۳‘الفتح:۲۸‘ الصف:۹’’وہی تو ہے جس نے بھیجا ہے اپنے رسول(محمد )کو الہدیٰ اور دین حق دے کر تا کہ غالب کردے اسے کل کے کل دین (نظامِ زندگی) پر‘‘.یعنی صرف معاشرتی نظام پر نہیں‘ بلکہ سیاسی نظام پر بھی اور معاشی نظام پر بھی اللہ کا دین غالب ہو. سود حرام ہے لہٰذا اس کو ختم کرو‘ اس کا استیصال کرو ‘ اسے جڑوں سے اُکھیڑ کر پھینک دو.

فحاشی اور منشیات کو کمائی کا ذریعہ بنانا حرام ہے‘لہٰذا اس کا سدباب کرو.یہ جو آج کل ہمارے معاشرے میں بے حیائی کو پھیلا کر اس کے ذریعے سے کمائی کے راستے اختیار کیے گئے ہیںاس سے ہمارا معاشرہ زوال کی جانب تیزی سے گامز ن ہے.آج کل ہر شے کے اشتہار کے ساتھ عورت کی تصویر ہوتی ہے اوراخبارات میں اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے . پھر فیشن اورشوبز کے نام پر باتصویر رنگین صفحات الگ سے چھاپے جاتے ہیں‘کہ یہ موسم گرما کا انداز ہے‘ یہ موسم سرما کاانداز ہے اور یہ بہار کے رنگ ہیں.یہ تمام چیزیں نہیں ہونی چاہئیں. میرے علم کی حد تک پوری دنیا میں‘ سوائے ترکی اور پاکستان کے‘کہیں بھی روزانہ کے اخبارات میں کبھی رنگین تصویر نہیں آتی. جو ڈیلی نیوز پیپرخرید رہا ہے وہ تو خبروں کے لییخرید رہا ہے‘تو اس میں عورتوں کی رنگین تصاویر کس لیے ہیں؟ یہ طرزِ معاشرت اور یہ ذرائع معیشت قطعاً غیر اسلامی ہیں. لہٰذا سارے نظاموں پر اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدوجہد ضروری ہے‘ جس کے لیے قرآن کی جامع اصطلاح ہے : اظہارُ دِینِ الحقِّ علی الدِّین کلہ. 

۴)یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ : یہ بھی ایک جامع ترین اصطلاح ہے اوریہ سورۃ الانفال میں آئی ہے.ارشاد ہوا : وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ ’’اور (اے مسلمانو!)ان (کفار و مشرکین )سے جنگ کرتے رہویہاں تک کہ فتنہ (کفر) باقی نہ رہے اور دین کل کا کل اللہ ہی کا ہو جائے‘‘.یعنی ان مشرکین اور کفار سے جنگ کرو اور جنگ کرتے رہو‘یہاں تک کہ فساد ‘ فتنہ اور بغاوت بالکل فرو ہوجائے اور نظام پورے کا پورا اللہ کے حکم کے تابع ہو جائے.اس آیت میں چوٹی کی بات بیان فرمائی گئی ہے‘ اس لیے کہ جہاد کی چوٹی قتال ہے. 

یہ ہے آخری منزل اور اس بارے میں ایک بات نوٹ کرلیجیے کہ سب سے اہم پہلی منزل ہے اور سب سے بلند تیسری منزل ہے.پہلی اس لیے اہم ہے کہ پہلی منزل ہوگی تو دوسری بنے گی اور دوسری ہو گی تو تیسری بنے گی. لیکن بلند ترین آخری منزل ہے‘ جس کے لیے یہ اصطلاحات بیان ہوئی ہیں:تکبیر رب ‘اقامت دین ‘ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ‘ اِظھارُ دینِ الحق عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ‘ وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ! 

اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا صحیح فہم اور اس کے مختلف اجزاء کے باہمی ربط و تعلق کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے‘ آمین یارب العالمین! 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمُسلمات