جہاد کا پودا زیرزمین بنیاد یعنی یقین والے ایمان سے نکل رہا ہے اورفرائض دینی کی پہلی چھت یعنی اسلام‘اطاعت‘تقویٰ اورعبادت کے لیے جدوجہد کرنا‘ یہ جہاد کی پہلی منزل ہے یا یوں کہہ لیں کہ پہلی چھت پر چڑھنے کے لیے جہاد بمنزلہ سیڑھی کے ہے. آگے اس کی تین ذیلی سطحیں (sub levels) ہیں.

دیکھئے‘سب سے پہلے آپ اللہ کے بندے بننا چاہتے ہیں جیسا کہ اس کا حق ہے تو اس کے لیے آپ کو تین قوتوں کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑے گا.سب سے پہلی قوت آپ کا نفس امارہ ہے اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳’’یقینا نفس تو برائی ہی کا حکم دیتا ہے‘‘اور اپنے نفس کے خلاف زو رآزمائی کرنا‘ یہ جہاد کی پہلی منزل کی پہلی ذیلی سطح ہے ‘اور یہ اہم ترین ہے ‘اس لیے کہ پہلی منزل ہو گی تو دوسری بنے گی اورپھر دوسری منزل ہو گی تو تیسری بنے گی. چنانچہ جہاد کی اہم ترین سطح مجاہدہ مع النفس اور نفس کے خلاف جہادہے. اسی لیے حضور نے فرمایا: اَلْمُجَاھِدُ مَنْ جَاھَدَ نَفْسَہٗ (۱’’مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس (کوکنٹرول کرنے ) کے لیے جدوجہد کرے‘‘.اسی طرح حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اَفْضَلُ الْجِھَادِ اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ وَھَوَاکَ فِیْ ذَاتِ اللّٰہِ تَعَالٰی (۲’’افضل جہاد یہ ہے کہ تم اپنے نفس اور اپنی خواہشات کو اللہ کا مطیع بنانے کے لیے ان کے خلاف جہاد کرو.‘‘ (۱) سنن الترمذی‘ابواب فضائل الجہاد‘ باب باب ماجاء فی فضل من مات مرابطا.

(۲) رواہ الدیلمی‘ بحوالہ کنزالعمال:۴/۲۶۹
جہاد کی پہلی منزل کی دوسری ذیلی سطح ہے: شیطان کے خلاف جدوجہد کرنا.اس لیے کہ اس نفس کو اُکسانے والا شیطانِ لعین ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کرنا بھی جہاد ہے.شیطان کے بارے میں قرآن نے واضح طور پر فرمادیا: اِنَّ الشَّیۡطٰنَ لَکُمۡ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوۡہُ عَدُوًّا ؕ (فاطر:۶’’یقینا شیطان تمہارا دشمن ہے‘ چنانچہ تم بھی اس کو دشمن ہی سمجھو!‘‘اسی طرح سورۃ الناس میں فرمایا: الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ۙ﴿۵﴾ ’’جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ اندازی کرتا ہے‘‘.جیسے آگ کے اوپر کچھ خاکستر آگیا ہوتو پھونکیں مار کر اس آگ کو بھڑکا یا جاتا ہے اسی طرح شیطان بھی نفس کے اندرپھونکیں مارتا رہتا ہے. حضور نے اس کی مثال یوں دی ہے کہ شیطان اپنی تھوتھنی انسان کے دل پر رکھتا ہے اور اس کو پھونکیں مارتا رہتا ہے .لہٰذا شیطان کو اپنادشمن سمجھتے ہوئے اُس کے خلاف جدوجہد کرو. وہ تمہیں نظر نہیں آتا اور تم پر وہاں سے حملہ کرتا ہے جہاں سے تم اسے دیکھ نہیں پاتے .چنانچہ جب تک تم اس کے خلاف جہاد نہیں کرو گے تو کیسے اللہ کے بندے بن سکو گے اورکیسے اپنے نفس کو تابع کرسکو گے!

جہاد کی پہلی منزل کی تیسری ذیلی سطح بگڑے ہوئے معاشرے کے خلاف جدوجہد کرنا ہے .اس لیے کہ معاشرہ بھی آپ کو برائی کی طرف دھکیلتا ہے.آپ نے اکثر یہ جملہ سنا ہوگا کہ کیا کریں جی‘ اب تو چلن ہی اس بات کا ہے ‘ اگر ہم اپنی بیٹیوں کو ستروحجاب کا پابند بنادیں گے تو ہماری بچیوں کے رشتے کہاں ہوں گے. اگر ہمارے ہونے والے داماد کویہ معلوم ہوجائے کہ وہ گھر کے اندر بلاروک ٹوک نہیں جا سکتا‘ اس لیے کہ اندر تو میری سالیاں ہیں جو میرے لیے نامحرم ہیں اور مجھے تو باہر بیٹھک میں بیٹھنا پڑے گاتو پھرکون ہمارا داماد بننا پسند کرے گا؟ اسی طرح اگر آپ رشوت لیتے تھے اور آپ نے اللہ کی توفیق سے چھوڑ دی ہے تو اب آپ کے گھر والے لڑیں گے اور آپ کو طرح طرح کی باتیں سنا کر آپ کو پھر سے رشوت کی دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کریں گے.وہ کہیں گے کہ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے؟آج کل تو سب رشوت لیتے ہیں‘ تمہیں تقویٰ کا ہیضہ ہو گیا ہے؟ پہلے ہم اعلیٰ سے اعلیٰ کھانا کھاتے تھے اور اب تو سوکھی روٹی مل رہی ہے‘وغیرہ وغیرہ. یہ معاشرہ آپ کو دباؤ میں ڈالے گا کہ بیٹیوں کے ہاتھ کہاں سے پیلے کریں گے؟ اس لیے کہ جہیز توناگزیر ہے‘ تو وہ کہاں سے لاؤ گے اگر رشوت نہیں لوگے؟چنانچہ یہ معاشرہ آپ کو بدی کی طرف دھکیل رہا ہے. اس کے خلاف جدوجہد(struggle) کرنا ہے. یہ جہاد کی پہلی منزل کا تیسرا sub level ہے. 

کسی بھی معاشرے کے اندر زندگی گزارنے کے دو انداز ہیں. ایک یہ کہ ؏ ’’زمانہ با تونسازد ‘توبازمانہ بساز!‘‘ یعنی اگر زمانہ تمہارے ساتھ ہم آہنگی اختیار نہیں کرتا تو تم زمانے کے رنگ میں رنگے جاؤ.گویا ؏ ’’چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی!‘‘ اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ ’’زمانہ باتونسازد‘تو بازمانہ ستیز!‘‘ کہ اگرزمانہ تمہارے ساتھ ہم آہنگی نہیں کر رہا تو تم زمانے کے خلاف جنگ کرو .اس کے لیے میں یہ مثال دیا کرتا ہوں کہ اگر ہجوم ایک طرف جا رہا ہے اورآپ بھی اُدھر ہی جا رہے ہیں تو آپ کو struggle کرنے کی ضرورت نہیں ‘وہ ہجوم خود ہی آپ کو اُدھر لے جائے گا. اور اگر آپ اس ہجوم کے مخالف سمت چلنا چاہیں گے تو ہو سکتا ہے بڑی مشکل سے آپ دو قدم چلیں اور پھر ہجوم کا ریلا آئے اور آپ کو دس قدم پیچھے لے جائے.علامہ اقبال نے ’’توبازمانہ ستیز‘‘ کی وضاحت اپنے اس شعر میں کی ہے :

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرارِ بولہبی!

الغرض فرائض دینی کی پہلی منزل یعنی اسلام‘ اطاعت‘ تقویٰ ‘ احسان اور عبادتِ ربّ کا تقاضا پورا کرنے کے لیے تین جہاد کرنے پڑیں گے:(i)نفس کے خلاف جہاد‘ (ii)شیطان اور اس کی ذرّیت ِمعنوی کے خلاف جہاد‘ اور(iii)بگڑے ہوئے معاشرے کے خلاف جہاد.