فرائض دینی کی دوسری چھت کے لیے چار اصطلاحات تھیں:تبلیغ‘ دعوت‘امر بالمعروف ونہی عن المنکر ‘اورشہاد ت علی الناس.ان کے لیے جدوجہد کرنا جہاد کی دوسری سطح/منزل ہے.ظاہری بات ہے کہ دعوت و تبلیغ کے لیے پہلے دین سمجھیں گے‘ سیکھیں گے‘ تبھی تو آگے پہنچائیں گے. تو دین کا سیکھنا‘سمجھنا اور اس کے لیے وقت لگانا جہاد ہے. وہی وقت جو آپ کسی دنیوی فن سیکھنے یا کوئی ہنر حاصل کرنے یا پی ایچ ڈی کرنے کے لیے لگاتے ہیں‘یہی وقت اللہ کی کتاب اور اُس کے رسول کی حدیث کو سمجھنے کے لیے لگانا پڑے گا تبھی تو آپ اللہ اور اس کے رسول کے پیغام کو لوگوں تک پہنچا پائیں گے.چنانچہ اللہ کے دین کو سیکھنے کے لیے وقت لگانا جہا د کی دوسری سطح ہے.دیکھئے‘اصل دولت تو وقت ہے. ایک ڈاکٹر اپنا وقت لگا کر فیس وصول کررہا ہے‘ کلرک اپنا وقت کام میں لگا تا ہے تو اسے پیسے ملتے ہیں. لیکن دین تقاضا کرتا ہے کہ یہی وقت دین کو سمجھنے اور سمجھانے میں لگاؤ.اسی لیے رسول اللہ نے فرمایا: خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ (۱’’تم میں سے بہترین وہ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں.‘‘ 

پھرجہاد کی اس دوسری منزل یعنی دعوت و تبلیغ کے لیے جان و مال کھپانے کی بھی تین ذیلی سطحیں (sub levels) ہیں. پہلی ذیلی سطح یہ ہے کہ آپ معاشرے میں موجودتعلیم یافتہ‘ ذہین اور دانشور اشرافیہ طبقہ (intellectual elite) کو اللہ کا پیغام پہنچائیں. یاد رکھیے کہ ان تک دعوت پہنچانا کوئی آسان کام نہیں ہے. اس کے لیے آپ کو خود بھی اسی لیول اور شعور (consciousness) پر آنا پڑے گا جس پر وہ لوگ ہیں. وہ وعظ سے اثر نہیں لیں گے‘بلکہ دلیل طلب کریں گے .جب قرآن کہتا ہے : ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾ (البقرۃ) کہ اے مشرکو‘ اے کافرو! اگر تمہارے پاس کوئی دلیل ہے توپیش کرو.تو انہیں بھی تو حق ہے ناکہ وہ دلیل کا مطالبہ کریں. اب دلیل کو جاننا اور لوگوں کو اس طور سے سمجھانا کہ ان کے ذہن کی تشفی ہو جائے‘ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے. سطحی علم سے تو ایسا نہیں ہو سکتا ‘اس لیے کہ ان کے اندر بگڑے تگڑے شیطان بھی ہوتے ہیں ‘اور غلط فلسفوں‘ غلط نظریات (مثلاً ڈارون ازم‘ مارکسزم‘ لاجیکل پازیٹوازم‘میٹریل ازم ‘ سیکولرازم ‘ لبرل ازم وغیرہ)نے ان کے ذہنوں میں پنجے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ. گاڑے ہوتے ہیں.چنانچہ ان سب سے نبرد آزما ہونے کے لیے بڑی اونچی سطح پر تحصیل علم و حکمت کی ضرورت ہے.یہ پوری زندگی کا معاملہ ہے ‘یہ کوئی پارٹ ٹائم جاب نہیں ہے ‘لہٰذا اس کام کے لیے اپنی زندگیوں کو لگا دو!

اس سے کم تر سطح پر عوام ہوتے ہیں جن کے دماغوں میں کوئی خناس نہیں ہوتا. وہ جانتے ہی نہیں کہ ڈاروِن ازم کس بلا کا نام ہے‘ مارکسزم کس پرندے کا نام ہے اور لاجیکل پازیٹوازم کیا چیز ہے.ان کو آپ سادہ انداز میں وعظ و نصیحت کریں گے تو وہ بھی کارگر ہوگی.لیکن اس کے لیے دو شرطیں ہیں: ایک تو یہ کہ خلوصِ دل سے آپ ان کو دعوت وتبلیغ کریں.یہ نہ ہو کہ آپ ان کو حقیر سمجھ کر ان پر اپنی نیکی کی دھونس جما رہے ہوں.اگر آپ کا طرزِ عمل ایسا ہوگا تو مخاطب کا ضمیر repel کرے گا‘اس لیے کہ دل‘ دل کو پہچانتا ہے کہ یہ میرے اوپر اپنی نیکی کی دھونس جما رہا ہے . لہٰذا خلوص سے ان کو دعوت دی جائے! اس حوالے سے یہ حدیث ہم پڑھ چکے ہیں : اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ کہ دین تو نام ہی خیر خواہی کا ہے‘ لہٰذا آپ بھی دعوت دیتے وقت نصح و خیر خواہی کو ملحوظ رکھیں.اس بارے میں دوسری شرط یہ ہے کہ آپ جس بات کی دعوت دے رہے ہیں اس پر خود بھی عمل پیرا ہوں‘ ورنہ آپ کی دعوت غیر مؤثر رہے گی.

دعوت وتبلیغ کے ضمن میںتیسر ی ذیلی سطح اُن لوگوں کا مقابلہ اور ان کے خلاف جدوجہد کرنا ہے جو باقاعدہ ٹریننگ لے کر لوگوں کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں.جیسے عیسائی مبلغین لوگوں کو عیسائی بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور انہیں بہت فنڈز دیے جاتے ہیں.عیسائی مشنریز کے بجٹ حکومتوں کے بجٹ کی طرح ہوتے ہیں. اسی طرح قادیانی مبلغین کی جو ٹریننگ ہوتی ہے اور انہیں جس طریقے سے پڑھایا سکھایا جاتا ہے‘ عام علماء ان سے بات نہیں کر سکتے جب تک خاص اس موضوع پر ان کو بھی ٹریننگ نہ دی گئی ہو. لہٰذا ان بگڑے تگڑوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو بھی اسی طرح کی ٹریننگ حاصل کرنی ہو گی.