دعوت و تبلیغ کے حوالے سے جدوجہد کے تین لیول ہو گئے . قرآن مجید کی ایک آیت میں ان تینوں کو جمع کر دیا گیا ہے .ارشادِ ربانی ہے: 

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ 
(النحل:۱۲۵
’’آپؐ دعوت دیجیے اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کیجیے بہت اچھے طریقے سے .‘‘

اس آیت میں اپنے رب کے راستے کی طرف بلانے یعنی دعوت و تبلیغ کے تین لیول بیان کیے گئے ہیں:(i) بِالْحِکْمَۃِ دانائی‘ حکمت‘ دلائل اور براہین کے ساتھ تبلیغ کرنا .یہ پہلی سطح کے لوگوں یعنی معاشرے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ دانشور اور اشرافیہ طبقے کے لیے ہے. (ii) وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ اچھے وعظ اور اچھی نصیحت کے ساتھ تبلیغ کرنا‘یعنی بات دل سے نکلے اور مخاطب کے دل میں اتر جائے. اس لیے کہ دماغ کی رکاوٹ (barrier) زیادہ ترپہلی سطح کے ذہین اور تعلیم یافتہ لوگوں میں ہوتی ہے کہ وہ ہر بات کو دلائل کے ترازو میں تولتے ہیں .لہٰذا آپ پہلے ان کے دماغ کے بیریئر کو عبور کریں گے تو پھر ان کے دلوں تک پہنچیں گے. لہٰذا یہ وعظ ونصیحت پہلی سطح کے لیے نہیں‘بلکہ عوام کے لیے ہے‘ اس لیے کہ ان میں عقل کا حجاب ہے ہی نہیں‘تو دل سے نکلی بات دل پر جا اُترتی ہے. 

اس ضمن میں یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اچھا وعظ وہ ہے جس پر انسان خودبھی عمل پیرا ہو.ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَی اللّٰہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ﴿۳۳﴾ (حٰمٓ السجدۃ) ’’اور اُس شخص سے بہتر بات اور کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوںمیں سے ہوں‘‘.یعنی وہ یہ دعویٰ نہ کرے کہ میں کوئی بہت بڑا مربی یا مزکی ہوں یا یہ کہ میں روحانیت کے بہت اونچے مقام پر فائزہوں‘بلکہ وہ کہے کہ میں بھی عام مسلمان ہوں اور تمہیں اسلام کی دعوت دے رہا ہوں. میں اپنے آپ کو کوئی سپرہیومن نہیں سمجھتا. میں نے آپ کو کئی دفعہ نوٹ کرایا ہے کہ حضوراکرم نے کبھی اپنے آپ کو سپرہیومن کی حیثیت سے پیش نہیں کیا. ’’اربعین نووی‘‘ کی حدیث نمبر ۲۹ میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ رات بھر کے سفر کی وجہ سے لوگ فجر کی نماز پڑھ کے جب چلے ہیں تو اپنی سواریوں پراونگھ رہے تھے تو اس وجہ سے ان کی اونٹنیاں بے مہارہوکر اِدھر اُدھر پھیل گئی ہیں. اس پر حضور نے فرمایا: اَنَا کُنْتُ نَاعِسًا ہاں بھئی‘میں تو خود بھی اونگھ رہا تھا. حضور نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ کیوں اونگھ رہے تھے‘ بلکہ فرمایاکہ میں بھی اونگھ رہا تھااور جو بشری تقاضے ہیں وہ مجھ پر بھی ہیں. لہٰذا دعوت کے ضمن میں یہ پہلو اہم ہے کہ عام آدمیوں کے اندر عام آدمی بن کر دعوت دی جائے ‘یہ نہ ہو کہ ان کے اوپرآپ اپنے تقویٰ ‘زہد اوردرجہ احسان کا کوئی رعب گانٹھیں.اس طرزِ عمل سے وہ آپ کے قریب آنے کے بجائے‘آپ سے بددل ہوکراسلام سے اور دور ہوجائیں گے.

تیسری چیز اس آیت میں یہ بیان ہوئی: ’’جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ‘‘ کہ بعض اوقات آپ کو مناظرہ اور مجادلہ بھی کرنا پڑے گا اور یہ دراصل تیسری سطح کے لوگوں کے لیے ہے جو تربیت یافتہ اور ماہر مبلغین ہوتے ہیں. جیسے انیسویں صدی کے اختتام پر مولانا رحمت اللہ کیرانوی ؒ نے ہندوستان میں پادری فنڈر کو شکست دی تھی. ورنہ اگر وہ بات نہ ہوتی تو شاید ہندوستان کے سارے مسلمان عیسائی ہو جاتے. فنڈر کلکتہ سے چل کر دہلی تک آ گیا اور ہر جگہ علماء کو شکستیں دیں ‘اس لیے کہ ہمارے علماء توبائبل پڑھتے ہی نہیں‘نہ تورات پڑھی اور نہ انجیل ‘ جبکہ عیسائی پادری تو پورے قرآن مجید کو پڑھ کر ‘ سمجھ کر‘ عربی زبان سیکھ کر اور پوری طرح تیار ہو کر آتے تھے تو ہمارے علماء ان کا کیسے مقابلہ کرسکتے تھے؟ مناظرہ کے لیے پہلے مکمل تیاری ہونی چاہیے .اگر وہ آپ کے قرآن پر حملہ کر رہے ہیں تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ انجیل کے کون کون سے مقامات ہیں جہاں پر آپ انہیں جھول دکھا سکتے ہیں. اِس دور میں شیخ احمد دیدات مرحوم نے یہ کام کیا اور اب ڈاکٹر ذاکر نائیک یہ کام کر رہے ہیں. ڈاکٹر ذاکر نائیک خاص طور پر ہندومت کے خلاف ان کی کتابوں اور ان کے حوالوں سے ان پر حجت قائم کر رہے ہیں.تو اس حوالے سے فرمایا گیا کہ اگر کبھی مجادلہ اور مناظرہ کی نوبت آئے تو وہ اچھے طریقے سے ہونا چاہیے.اگر مدمقابل تمہیں گالی دے ‘ تم تب بھی گالی مت دینا. وہ اللہ کو برا بھلا کہیں تو تم ان کے معبودوں کو برا بھلا مت کہنا.کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کی حمیت بھڑک اٹھے اور وہ تمہاری بات ہی سننے سے انکار کر دیں‘ بلکہ ہونا یہ چاہیے کہ اچھے طریقے سے ان کے جذبات و احساسات کا پاس کرتے ہوئے ان سے بات کی جائے.اس طرح یہ دوسرے لیول کے جہاد کے تین sub level ہو گئے:(i) تعلیم یافتہ اور اشرافیہ طبقے کو دعوت و تبلیغ‘(ii) عوام الناس کو دعوت و تبلیغ ‘اور(iii) تربیت یافتہ ‘ایکسپرٹ اوربگڑے تگڑوں کو دعوت و تبلیغ.