اب آیئے جہاد کی تیسری منزل کی طرف اور وہ ہے انقلاب برپا کرکے پرانے نظام کو ختم کرنا اوراللہ کے دین کو قائم کرنا.یہ سب سے مشکل مرحلہ ہے. یوں سمجھئے کہ جہاد کا درخت جو یقین والے ایمان سے پھوٹا تھا ‘اب وہ اپنی چوٹی کو پہنچ رہا ہے. ہر نظام کے ساتھ کچھ لوگوں کے وابستہ مفادات(vested interests) ہوتے ہیں اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے نظام کو کوئی نہ چھیڑے. کیا جاگیردار کبھی پسند کرے گا کہ جاگیرداری نظام کو ختم کر دیا جائے؟دنیاکے اندر جو بھی نظام رائج ہیں ان میں چند طبقات کو خاص مراعات حاصل ہوتی ہیں اور وہ کبھی بھی اپنی مراعات چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے. چنانچہ اس مرحلہ میں تصادم اور ٹکراؤ ناگزیر ہے. اس سے پہلے تو سارا معاملہ اندر ہی اندر ہو رہا تھا.پہلے مرحلے پر نفس اور شیطان کے خلاف جہاد تواندر ہی اندر تھا. دوسرے نمبر پر باطل نظریات اورعقائد کے خلاف جہاد میں بھی جنگ اور تصادم نہیں تھا. زیادہ سے زیادہ کوئی آپ کو گالی دے جائے گا‘برا بھلا کہہ جائے گا ‘یا جیسے ہمارے ہاں تبلیغی جماعت کو مسجد میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے یا ان کے بستر تہہ کروا کر نکال باہر کیے جاتے ہیں‘مگراس مرحلے میں کوئی مارتا نہیں.لیکن نظام کو بدلنے کے لیے ہتھیلی پر جان رکھ کر میدان میں آنا پڑے گا . جہاد کی اس منزل کی بھی آگے تین ذیلی سطحیںہیں. پہلا ہے غیر فعال مزاحمت (passive resistance) ‘یعنی اگر وہ تمہیں ٹارچر کریں‘ ذہنی و جسمانی تشدد کریں تو پہلا مرحلہ یہ ہے کہ اسے برداشت کرو اور کوئی جوابی کارروائی نہ کرو. بارہ سال مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے لیے یہی حکم تھا کہ چاہے کافر تمہارے ٹکڑے کر دیں یا تمہیں زندہ جلادیں‘ تم نے اپنے دفاع میں بھی ہاتھ نہیں اٹھانا!یہ اس تصادم کا پہلا مرحلہ تھا اور یہی اصل میں محمدرسول اللہ کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے . سیرتِ مطہرہ کے اس پہلو کو لوگوں نے سمجھا ہی نہیں ہے. میری کتاب’’ منہجِ انقلابِ نبوی ‘‘کا مطالعہ کیجیے اور جانیے کہ رسول اللہ کے انقلاب کا منہج کیا تھا اور اس کے مراحل کون کون سے تھے.ابتدائی بارہ برس تک حکم یہی تھا کہ کوئی جوابی کارروائی نہیں کرنی!

اس زمانے میں جوروستم (persecution) کا ایک انداز زبانی (verbal) بھی تھا. مثلاً کسی نے آکے کسی مسلمان کو گالی دی ہے‘ کسی نے کہا کہ پاگل ہو گئے ہویا تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے. حضور کو بھی (نعوذ باللہ)یہ سب کہا گیا کہ پاگل ہو گئے ہیں‘ مجنون ہیں‘ان پر جادو کا اثر ہے‘وغیرہ. یہ سب کہا گیا ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اہۡجُرۡہُمۡ ہَجۡرًا جَمِیۡلًا ﴿۱۰﴾ ’’(اے نبی  !) جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پر آپ صبر کیجیے اور ان کو چھوڑ دیجیے بڑی خوبصورتی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے‘‘. ظاہر ہے کہ آپ کو ان جملوں سے سخت تکلیف بھی پہنچتی تھی. سورۃ الحجر کے آخر میں فرمایا : وَ لَقَدۡ نَعۡلَمُ اَنَّکَ یَضِیۡقُ صَدۡرُکَ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۹۷﴾ ’’اور ہم جانتے ہیں کہ آپ ؐ کا سینہ تنگ ہوتا ہے ان کی باتوں سے‘‘.یعنی آپ  کا دل دکھتا ہے کہ یہی وہ لوگ تھے جو میرے قدموں میں اپنی آنکھیں بچھا تے تھے اور مجھے الصادق اور الامین کہتے تھے‘ آج یہ مجھے جھوٹا اور شاعر کہہ رہے ہیں.اس پر آپ کو سخت کوفت ہوتی تھی.لیکن اس وقت حکم یہی تھا کہ کفار کی طرف سے جو بھی اذیت آئے‘ چاہے وہ زبانی ہویاجسمانی ‘بہرصورت اسے جھیلو اور برداشت کرو.یہ جہاد کے تیسرے مرحلے کی پہلی ذیلی سطح ہے. اس کے بعد ایک وقت آتا ہے جبکہ داعی کے ساتھ تعداد کافی ہو جاتی ہے اور اب اس کے لیے اس نظام کو للکارنا ممکن ہو جاتا ہے. ظاہر بات ہے کہ دو چار سو آدمیوں سے نظام کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا . آج کل کے حساب سے تولاکھوں آدمی چاہئیں. اب اگر داعی کو اندازہ ہے کہ معتدبہ تعداد موجودہے تو اب وہ اس نظام کے خلاف کوئی عملی حرکت کرے اورفعال مزاحمت (active resistance) کا آغاز کرے. یہ ہے جہاد کے تیسرے مرحلے کی دوسری ذیلی سطح.
اس کے بعد آخری سطح پر آکر حق و باطل کا تصادم ہو گا اور اس تصادم میں جانیں بھی جائیں گی. یہ دو طرفہ تصادم بھی ہو سکتا ہے‘ جیسے ہمیں حضور اکرم کی سیرت میں نظرآتا ہے ‘اور یہ یک طرفہ تصادم بھی ہو سکتا ہے. آج کے دور میں یک طرفہ تصادم اور یک طرفہ جنگ کی شکل سامنے آئی ہے. وہ یہ ہے کہ آپ کسی پر ہاتھ نہ اُٹھائیں لیکن نظام (system) کوبلاک کر دیں. یعنی دھرنا دیں‘ گھیراؤ کریں اور نظام کو مفلوج کردیں .یہ نوبت پاکستان میں آج تک نہیں آئی ‘البتہ اہل تشیع نے ایک دفعہ یہ کر کے دکھایا ہے . ضیاء الحق کے زمانے میں پچاس ہزار کی تعداد میں انہوں نے سیکریٹریٹ کا گھیراؤ کر لیا اور کہا کہ یہاں سے ہم تب تک نہیں اٹھیں گے جب تک ہمیں یہ گارنٹی نہ دی جائے کہ ہم سے زکوٰۃ نہیں لی جائے گی. زکوٰۃ ہم آپ کو نہیں دیں گے ‘ہم جہاں دیتے ہیں وہیں دیں گے ان کی زکوٰۃ ان کے مراجع یعنی ایران اور عراق میں موجود ان کے بڑے بڑے علماء کو جاتی ہے اور وہ عام آدمی کے لیے نہیں ہے بہرحال انہوں نے یہ کر کے دکھایا اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق کو ان کا مطالبہ ماننا پڑا.

آج کے دور میں یک طرفہ تصادم کی یہ نئی شکل پیدا ہوئی ہے.یوکرائن میں اسی طریقے سے انقلاب آگیا. جب لوگوں کے سیلاب نے پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا تو ان کا صدر پچھلے دروازے سے جان بچا کر بھاگ گیا. یہی جارجیا میں ہوا اور یہی لاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں ہوچکاہے. یہ یک طرفہ تصادم دنیا میں ہو رہا ہے ‘ لیکن ہمیںاپنی جان دینے کے لیے تیار رہنا پڑے گا. ہو سکتا ہے کہ حکومت حکم دے اور آپ کے اوپر گولیاں چل جائیں اور آپ کو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑے ؎

جان دی‘ دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!

اب یہ جہاد سے آگے بڑھ کر قتال کا مرحلہ آگیااور یہ جہاد کا آخری اور سب سے اونچا درجہ ہے. اس کے لیے آغازِ خطاب میں سورۃ الصف کی یہ آیت بھی تلاوت کی گئی تھی : اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾ ’’اللہ کو تو محبوب ہیں وہ بندے جو اُس کی راہ میں صفیں باندھ کر قتال کرتے ہیں ‘جیسے کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہوں.‘‘

دینی فرائض کے حوالے سے میں نے تین منزلہ عمارت کی مثال دی ہے. اس میں ظاہر بات ہے کہ پہلی منزل سے اوپر چڑھنے کے لیے سیڑھی چاہیے تو وہ جہاد کا پہلا مرحلہ ہے . دوسری منزل سے اوپر جانے کے لیے پھر آپ کو سیڑھی چاہیے تو یہ جہاد کا دوسرا مرحلہ ہے . پھر آخری منزل پر جانے کے لیے بھی سیڑھی چاہیے تو وہ جہاد کا تیسرا مرحلہ ہے.