آخری بات یہ ہے کہ آپ کے پاس جہاد کرنے کے لیے ہتھیار اور ذریعہ کیا ہے؟ یہ قرآن مجید ہے. لہٰذا قرآن مجید پڑھو اور اسے اپنے اندر اتارو.جیسے رسول اللہ کو حکم دیا گیا: 

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾نِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا ۙ﴿۳﴾اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًا ؕ﴿۴﴾ 

’’اے کمبل میں لپٹ کر لیٹنے والے ( ) ! آپ کھڑے رہا کریں رات کو(نماز میں) سوائے اس کے تھوڑے سے حصے کے. (یعنی) اس کا آدھایااس سے تھوڑا کم کر لیجیے.یا اس پر تھوڑا بڑھا لیں اور ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے جایئے.‘‘

یہ قرآن نور ہے اور جتنا نور باطن کے اندر جائے گا اتنی ہی اندر کی تاریکیاں چھٹتی جائیں گی. نفس کے خلاف جہاد کے لیے ہتھیار بھی قرآن ہے اور دعوت و تبلیغ میں ہتھیار بھی قرآن ہی ہے‘ اس لیے کہ قرآن میں حکمت ہے : ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ (بنی اسرائیل:۳۹’’یہ ہے جو (اے محمد !) آپ کے رب نے آپ کی طرف وحی کی ہے حکمت میں سے‘‘.قرآن سے حکمت سیکھو اور حکمت کی سطح پر دعوت و تبلیغ دو. قرآن سے وعظ حاصل کرو اور اس وعظ کے ذریعے سے دعوت و تبلیغ دو. قرآن مجید سے سمجھو کہ مشرکین کے خلاف کیسے مناظرہ ہوا‘ منافقین کے ساتھ کیسے ہوا‘ اہل کتاب کے ساتھ کیسے ہوا اور پھر اسی کے حساب سے خود بھی تیاری کرو.یہ سب قرآن مجید میں موجود ہے. گویا جہاد کے تینوں levels کے لیے ہتھیار قرآن ہے.اسی لیے سورۃ الفرقان میں فرمایا گیا: فَلَا تُطِعِ الۡکٰفِرِیۡنَ وَ جَاہِدۡہُمۡ بِہٖ جِہَادًا کَبِیۡرًا ﴿۵۲﴾ ’’تو (اے نبی !) آپ ان کفارکا کہنا نہ مانیے اور آپ ان کے ساتھ جہاد کریں اس (قرآن) کے ذریعے سے بڑا جہاد‘‘.اکیلے میں جو جہاد ہو رہا تھا چاہے وہ نفس کے خلاف تھا‘ چاہے وہ باطل عقائد اور باطل لغویات کے خلاف تھا وہ جہاد بالقرآن تھا ‘یعنی قرآن کے ذریعے سے جہاد ہو رہا تھا.