دنیوی و اُخروی زندگی کی حیثیت اور ہماری ترجیحات

دُنیوی اوراُخروی زندگی کی کیا حیثیت ہے اور ہماری ترجیحات کیا ہیں ؟یہ موضوع قرآنِ مجید کے بے شمار مقامات پر آیا ہے. ’’مشتے نمونہ از خروارے ‘‘کے طور پر میں نے ابتدا میں تین آیات کی تلاوت کی ہے. سورۃ القیامہ میں اللہ تعالیٰ شکوہ کے انداز میں نوعِ انسانی سے کہہ رہے ہیں: کَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ تَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَۃَ ﴿ؕ۲۱﴾ ’’ہرگز نہیں! اصل بات یہ ہے کہ تم لوگ جلدی ملنے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو.اور تم آخرت کو چھوڑ دیتے ہو‘‘.یعنی تمہارا اصل مرض یہ ہیکہ تم لوگ ’’حب ِعاجلہ‘‘ میں مبتلاہو‘اپنی دنیا کی زندگی اور دنیا کے مال و اسباب سے محبت کرتے ہو اور اس کے مقابلے میں آخرت کو بالکل ہی نظر انداز کیے ہوئے ہو. پھر یہی بات سورۃ الاعلیٰ میں بایں الفاظ فرمائی گئی: بَلۡ تُؤۡثِرُوۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا ﴿۫ۖ۱۶﴾وَ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی ﴿ؕ۱۷﴾ ’’بلکہ تم دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو.جبکہ آخرت بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والی بھی‘‘.آخرت کے مقابلے میں دنیا فانی اور چند روزہ ہے. اول تو پوری دنیا ہی فانی ہے اور ایک دن پوری کائنات نے ختم ہو جانا ہے‘پھر اس میں ہماری کیا حیثیت ہے. ہماری زندگی تو بس چند سال کی ہے‘ جبکہ اللہ کا ایک دن ہزار برس کا ہے‘لیکن ہمارا طرزِعمل یہ ہے کہ ہم آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ’’ترجیح‘‘دیتے ہیں.اس لفظ ترجیح کو نوٹ کیجیے.یہ بات واضح ہے کہ ہمارا دین یہ نہیں کہتا کہ دنیا کو چھوڑ دو . ترکِ دنیا تو رہبانیت ہے اور وہ اسلام میں نہیں ہے. لیکن مطلوب طرزِ عمل یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کو ترجیح دو اور اس ضمن میں کیفیت یہ ہونی چاہیے کہ ؏ ’’بازار سے گزرا ہوں‘ خریدار نہیں ہوں!‘‘