تیسری آیت جو میں نے ابتدا میں تلاوت کی‘وہ سورۃ الکہف کی آیت۷ ہے اور اس میں یہ بات بڑے ہی کانٹے دارانداز میں کہی گئی ہے سورۃ الکہف کے بارے میں حضور نے فرمایا ہے کہ دجالی فتنے سے بچنا چاہتے ہو تو سورۃ الکہف کی ابتدائی دس آیات کی تلاوت کرو . بعض روایات میں آتا ہے کہ آخری آیات کی تلاوت کرو اور بعض روایات میں آتا ہے کہ پوری سورۃ الکہف کی تلاوت کرو.سورۃ الکہف اور فتنہ دجال کے مابین کیا ربط و تعلق ہے‘اس پر میرے مفصل دروس موجود ہیں جن کا مطالعہمفید رہے گا اس سورۃ کے پہلے رکوع میں یہ آیت آئی ہے : اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَی الۡاَرۡضِ زِیۡنَۃً لَّہَا لِنَبۡلُوَہُمۡ اَیُّہُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ﴿۷﴾ ’’یقینا ہم نے بنا دیا ہے جو کچھ زمین پر ہے اسے اس کا بناؤ سنگھار تاکہ انہیں ہم آزمائیں کہ ان میں کون بہتر ہے عمل میں‘‘.دُنیا کے یہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ دراصل انسان کی آزمائش کے لیے بنائے گئے ہیں. ایک طرف دنیا کی یہ سب دلچسپیاں اور رنگینیاں ہیں اور دوسری طرف اللہ اور اس کے احکام ہیں. انسان کے سامنے یہ دونوں راستے کھلے چھوڑ کر دراصل یہ دیکھنا مقصود ہے کہ وہ ان میں سے کس کا انتخاب کرتا ہے. دنیا کی رنگینیوںمیں کھوجاتاہے ‘اس عروس ہزار داماد کے عشق کے اندر مبتلا ہو کر ساری دوڑ دھوپ اور دن رات کی محنت و مشقت اسی کے لیے کر تا ہے اپنے خالق و مالک کو پہچانتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل کو اپنی زندگی کا اصل مقصود سمجھتا ہے اور آخرت کا طالب ہوکر دنیا کو صرف بقدرِ ضرورت استعمال کرتا ہے. اس بات کو بہت پیارے انداز میں ایک شعر میں یوں کہا گیا ہے : ؎

رُخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے!

ایک طرف ہمارے محبوبِ حقیقی کا دمکتا ہوا روشن چہرہ ہے اور دوسری طرف یہ دنیا کی روشنی اور چمک ہے جو حقیقی نہیں ہے‘ اب دیکھنا اصل میں یہ ہے کہ پروانہ اُدھر جا رہا ہے یا اِدھر آرہا ہے. اسی آزمائش کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو زیبائش اور آرائش سے نوازا ہے اور یہ آرائش و زیبائش آج اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے.یہ دنیا اتنی حسین کبھی بھی نہیں تھی جتنی کہ آج ہے. دنیا کا حسن دبئی ‘ یورپ ‘ امریکہ ‘ ابوظہبی اور سعودی عرب میں جا کے دیکھئے‘ وہاں آپ کو دنیا کی آرائش و زیبائش اپنی انتہا پر نظرآئے گی.پھر ظاہر بات ہے کہ آدمی اس کی طرف کھینچتا چلا جاتا ہے .اس دنیا کو دلہن کی طرح بنا ؤ سنگھار کر کے ہمارے سامنے رکھ دیا گیا ہے اور ہمارا امتحان یہ ہے کہ ہماری ساری توجہ اور محبت اسی پر مرکوز ہو جاتی ہے یا ہماری محبت کا مرکز و محور اللہ سبحانہ و تعالیٰ قرار پاتا ہے.