اربعین نووی کی زیر مطالعہ حدیث(حدیث نمبر۳۱)بھی اسی موضوع سے متعلق ہے.سیدنا ابوالعباس سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جَائَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ  فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ’’ایک شخص نبی اکرم کی خدمت میں حاضرہوا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول !‘‘ دُلَّنِیْ عَلٰی عَمَلٍ اِذَا عَمِلْتُہُ اَحَبَّنِیَ اللّٰہُ وَاَحَبَّنِی النَّاس ’’میری راہنمائی فرمایئے کسی ایسے عمل کی طرف کہ جب میں اس پر عمل کرلوں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرنے لگے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کرنے لگیں‘‘. یعنی کوئی ایسا عمل بتلائیے کہ جس کے کرنے سے میں اللہ کا بھی محبوب بن جاؤں اور لوگوں کا بھی محبوب بن جاؤں. تمنا بہت اچھی اور بہت عمدہ ہے.صحابیؓ کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں دنیا اور آخرت دونوں کی فکر تھی اور انہوں نے ترجیح آخرت کو دی کہ اللہ کومقدم رکھا ‘کہ میں اللہ کا بھی محبوب بن جاؤں اور دنیا کا بھی محبوب بن جاؤں. اس کے جواب میں محمد رسول اللہ نے فرمایا: اِزْھَدْ فِی الدُّنْیَا ‘ یُحِبَّکَ اللّٰہُ ’’دنیا سے زہد اختیار کرو‘اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘. یعنی دنیا کی آسائشوں‘ آرائشوں‘ عیاشیوں‘ لذتوں سے بچو‘ انہیں کم سے کم رکھو تو اللہ تم سے محبت کرے گا.

ہمارے ہاں عموماًزہد و قناعت کا لفظ بولا جاہے. قناعت کے معنی ہی یہ ہیں کہ کم سے کم پر راضی رہنا اورزیادہ کی ہوس کا نہ ہونا ‘یعنی اپنے سے زیادہ والوں کو دیکھ کر کوئی رشک نہ آئے کہ ان کے اوپر تو اللہ کی بڑی رحمتیں ہیں. بس یہ جذبہ ہو کہ اللہ نے جو کچھ مجھے دیا ہے اور جس حال پر مجھے رکھا ہے اس پر میں شکر ادا کرتا ہوں .ہو سکتا ہے کہ اگر وہ مجھے زیادہ دے دیتا تو میرے اندر اخلاقی طور پر زوال آ جاتا اورمیں عیاشیوں اور بدمعاشیوں میں مبتلا ہو جاتا.لہٰذا میرے لیے یہ کمی درحقیقت بہت بڑی غنیمت ہے اور اسی میں میرے لیے عافیت ہے.