اب اس کے ضمن میں ‘میں دو اوراحادیث آپ کوسناتا ہوں جو بہت ہی عمدہ ہیں. یوں سمجھئے کہ جوامع الکلم میں سے ہیں. پہلی حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمرiہیں‘وہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضور نے مجھے میرے کندھے سے پکڑا اور فرمایا: کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ (۱’’دیکھو دنیا میں ایسے رہو گویا تم اجنبی ہو یا راستہ چلنے والے مسافر ہو‘‘.یعنی دنیا کے معیارات کے اعتبار سے نامور و مشہور ہوجانا‘صاحب اقتدار ہو جانا‘ صاحب ثروت ہو جانا‘ یہ مطلوب نہیں ہونا چاہیے‘ بلکہ دنیا میں ایسے رہنا چاہیے جیسے کہ اجنبی ہو.یہ دنیا تمہارا وطن نہیں ہے‘بلکہ تمہارا اصل وطن اور تمہارا اصل گھر تو آخرت میں ہے. یہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے اور تمہیں یہاں امتحان کے لیے بھیجا گیا ہے. سورۃ الملک میں فرمایا: الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ (آیت۲’’(اللہ ہی وہ ذات ہے )جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے اعمال کرنے والا ہے‘‘. کبھی اللہ دے کر آزماتا ہے کہ بندہ شکر کرتا ہے یا نہیں اور کبھی چھین کر آزماتا ہے کہ صبر کرتا ہے یا نہیں! صابر و شاکر کے الفاظ اردو میں بھی ہمارے ہاں جڑ کر آتے ہیں. اگر کوئی تکلیف آ گئی یا کوئی نقصان ہو گیا یا کوئی بیماری آ گئی تو انسان اسے اللہ کی طرف سے سمجھتے ہوئے صبر کرے اورکوئی بھی حرفِ شکایت زبان پر نہ آنے پائے.سورۃ الحدید میں فرمایا: (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب قول النبی کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل. وسنن الترمذی ‘ ابواب الزھد‘ باب ما جاء فی قصر الامل. مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿ۚۖ۲۲﴾لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۣ ﴿ۙ۲۳﴾ 

’’نہیں پڑتی کوئی پڑنے والی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری اپنی جانوں میں مگر یہ کہ وہ ایک کتاب میں درج ہے ‘اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کریں.یقینا یہ اللہ پر بہت آسان ہے.تاکہ تم افسوس نہ کیا کرو اُس پر جو تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے اور اس پر اِترایا نہ کرو جو وہ تمہیں دے دے.اور اللہ کو بالکل پسند نہیں ہیں اِترانے والے اور فخر کرنے والے.‘‘