دنیا ہمارااصل وطن‘گھرا ور منزل نہیں ہے!

دوسری حدیث بھی سن لیجیے.یہ بھی بڑی پیاری حدیث ہے. حضرت علقمہ بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نَامَ رَسُولُ اللّٰہِ  عَلٰی حَصِیرٍ فَقَامَ وَقَدْ أَثَّرَ فِی جَنْبِہٖ‘ فَقُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَــوِ اتَّخَذْنَا لَکَ وِطَائً؟ فَقَالَ ’’ایک مرتبہ رسول اللہ بوریے پر سو کر اُٹھے تو آپؐ کے جسم مبارک پر چٹائی کے نشانات تھے .ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم آپؐ کے لیے ایک بچھونا بنا دیں‘‘. آپ نے فرمایا: 

مَا لِی وَمَا لِلدُّنْیَا مَا أَنَا فِی الدُّنْیَا إِلَّا کَرَاکِبٍ اسْتَظَلَّ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ رَاحَ وَتَرَکَہَا 
(۱
’’ مجھے دنیا سے کیا غرض ‘ میں تو دنیا میں اس طرح ہوں کہ جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سائے کی وجہ سے بیٹھ گیا پھر وہاں سے روانہ ہوگیا اور درخت کو چھوڑدیا.‘‘

ظاہر بات ہے کہ وہ درخت اس سوار کاعارضی قیام تھا.وہ اُس کا وطن‘ اُس کاگھر یا اس کی منزل نہیں تھی. اسی طرح سے یہ دنیا بھی ہماری منزل‘ ہمارا گھر‘ اورہمارا وطن نہیں ہے. ایک موقع پر حضور نے فرمایا: فَاِنَّمَا خُلِقْتُمْ لِٓاخِرَۃِ والدُّنْیَا خُلِقَتْ لَکُمْ (۲’’تم آخرت کے لیے پیدا کیے گئے ہو اوریہ دنیا تمہارے لیے پیدا کی گئی ہے ‘‘.پھراسی دنیا میں ہمارا امتحان بھی ہو رہا ہے. بہرحال اللہ تعالیٰ نے ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے کی تمام چیزیں اسی دنیا میں رکھی ہیں‘ان کو استعمال کرو ‘لیکن اس دنیا کو مطلوب و مقصود اور محبوب نہ بنا لو.

ہمارے علماء اس کی بڑی پیاری مثال دیتے ہیں کہ ہم دنیا میں کشتی کی مانند ہیں. کشتی پانی میں ہے تو عافیت ہے ‘ لیکن اگر کشتی میں پانی آ گیا تو اب تباہی وبربادی ہے. اس لیے حضور نے فرمایاکہ دنیا میں مسافر اور سوار کی طرح رہوجو کسی درخت کے سائے میں آرام کرنے کی خاطر تھوڑی دیر کے لیے رکتا ہے اور پھر وہ اس درخت کو چھوڑ کر اپنی اصل منزل کی طرف رواں دواں ہو جاتا ہے.

ایک اور حدیث ملاحظہ ہو. ایک صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپؐ پر عجیب کیفیت طاری ہے جیسے آپؐ کسی (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الزہد‘ باب ما جاء فی اخذ المال بحقہ.

(۲) رواہ البیہقی فی شعب الایمان. 
چیز کو اپنے دونوں ہاتھوں سے دھکا دے کر اپنے سے دور کر رہے ہوں. میں کچھ دیر تک دیکھتا رہا‘پھر میں نے پوچھا:یارسول اللہ !یہ کیا معاملہ ہے. رسول اللہ نے فرمایا: دنیا ایک نہایت خوبصورت عورت کی شکل میں میرے سامنے لائی گئی‘ تو میں اسے دھکے دے رہا تھا کہ مجھے تم سے کیا سروکار! تو یہ ہے اصل میں زہد فی الدنیا. اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ کے محبوب بن جاؤ تو دنیا میں زہد اختیار کرو.