اگلا معاملہ اس سے بھی زیادہ عملی ہے. اخلاقیات کے اندر یوں سمجھئے کہ یہ بلند ترین تعلیمات میں سے ہے .انسان لوگوں کا محبوب کیسے بن سکتا ہے اس کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا: وَازْھَدْ فِیْمَا فِیْ اَیْدِی النَّاسِ یُحِبَّکَ النَّاسُ ’’اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے بے نیاز رہو ‘لوگ تم سے محبت کریں گے‘‘. ایسا نہ ہو کہ کسی دولت مند کو دیکھ کریہ حسرت پیدا ہو جائے کہ یہ دولت میرے پاس کیوں نہیں؟ یا حسد تو نہ آئے‘لیکن رشک کے انداز میں ایسی بات آ جائے تو یہ احساس زہد کے خلاف ہو جائے گا. اگرچہ رشک کرنا حرام نہیں ہے‘ حسد حرام ہے‘لیکن رشک زہد کے خلاف ہے جو ایک بہت اونچا رتبہ ہے . 

اگر انسان لوگوں کے مال و دولت سے بے نیاز رہے اوردولت مند دیکھے کہ یہ آدمی میرے پاس میری دولت کی وجہ سے نہیں آیا‘یہ مجھے کوئی کلمہ خیر کہنے کے لیے آیاہے‘ یاحقوق العباد میں سے کسی حق کوادا کرنے کی تلقین کرنے کے لیے آیاہے‘یا میں مریض تھا تو میری عیادت کرنے آ گیا ہے‘اسے میری دولت سے کوئی سروکار نہیں ‘ اس کے اندر میں نے کوئی لالچ محسوس نہیں کی اور اس کی آنکھوں کے اندر مجھے کوئی ہوس نظر نہیں آ رہی. اگر ایسا ہو گا تو وہ شخص آپ سے محبت کرے گا اور آپ کا مقام اس کی نگاہ میں بلندہو جائے گا. اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہوتو وہ محسوس کرے گا کہ یہ میری دولت سے مرعوب ہو گیا ہے‘ یا میرے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ کر اس کے دل میں حسرت پیدا ہوئی ہے‘ یا یہ تو بڑی للچائی ہوئی نظروں سے میری قیمتی چیزوں کو دیکھ رہا ہے تو وہ آپ سے محبت تو دور کی بات ہے‘نفرت کرے گا. 

الغرض‘زیر مطالعہ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ آپ بحیثیت مجموعی دنیا‘دنیا کی زندگی‘ دنیا کی آسائشوں ‘آرائشوں‘نعمتوں ‘لذتوں اور دنیا کی تعیشات سے بچیں تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا. اور زہد اور بے نیازی اختیار کریں ان چیزوں کے بارے میں جو لوگوں کے پاس ہیں تو اس سے لوگوں کے دلوں میں آپ کی وقعت بڑھ جائے گی اور لوگ آپ سے محبت کریں گے. یہ درحقیقت ہمارے لیے اخلاقی تعلیم کے اعتبار سے کانٹے کی بات ہے.

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی آرائش و زیبائش اور دنیاکے ساز و سامان سے ہماری حفاظت فرمائے اور صحیح معنوں میں ہمیں اس حدیث کا مصداق بنائے.

آمین یارب العالمین! 
اَقُوْلُ قَوْلِیْ ھٰذَا وَاسْتَغْفِر اللّٰہ لِیْ ولکم وَلِسَائِرِ الْمُسْلِمِیْنَ والمُسلمات