معاشی سطح پر عدل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں بھی دنیا میں پیدا کی ہیں‘ ان سب کی تقسیم منصفانہ ہونی چاہیے. یہ نہیں کہ ان میں کسی خاص گروہ کی اجارہ داری قائم ہو جائے اوردوسرا گروہ ان کا دست نگر بن کر رہ جائے بایں طور کہ ایک طرف دولت کے انبار لگ جائیں اور ایک طرف فقر و فاقہ اور بھوک کا عالم ہو‘بلکہ ہر انسان تک بنیادی ضروریات کی فراہمی ہونی چاہیے.اسلام کے نظامِ عدل میں عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرناریاست کی ذمہ داری ہوگی‘ باقی ہر شخص کو آزاد چھوڑا جائے گاکہ وہ محنت ومشقت کرے‘ جدوجہد کرے اورحلال ذریعے سے کمائے . اب اس صورت میں اگر کوئی زیادہ کمائے تو وہ اس کا حق ہے اور کوئی کم کمائے تو یہ اس کا اپنا انفرادی معاملہ ہے. البتہ جوپیچھے رہ جائیں تواسلام میں ان کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کی بھی ایک صورت رکھی گئی ہے اوروہ یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس اُن کی ضرورت سے زائد ہو گیا ہے اور وہ ایک خاص سطح (جسے فقہی اصطلاح میں ’’نصاب‘‘سے تعبیر کیا جاتاہے )سے آگے نکل گئے ہیں تو ان سے زکوٰۃ لی جائے اور ان طبقات کو پہنچائی جائے جو پیچھے رہ گئے ہیں.