سوشل سکیورٹی کا نظام اسلام کا ایجاد کردہ ہے!

آج کی دنیا میں اسے سوشل سکیورٹی کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ دور میں انسان نے بہت ترقی کی ہے‘ لیکن سوشل سکیورٹی کا اصول موجودہ دور کا ایجاد کردہ نہیں ہے‘بلکہ اس کاآغاز خلافت راشدہ کے دور سے ہواتھا.خلافت راشدہ کے دور میں یہ اصول رائج تھا کہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت کرنا خلافت کی ذمہ داری ہے‘یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ہے کہ اگر دجلہ یا فرات کے کنارے (یعنی مدینہ منورہ سے کوسوں دور عراق کے ملک میں) کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو قیامت کے دن عمر سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا. 

سوشل سکیورٹی کا تصور اگرچہ اسلام نے دیا تھا‘ لیکن آج ہم اس حوالے سے بہت پیچھے ہیں.ہمارا نظام ظالمانہ ہے‘یہاں غریب پستی کی حدوں کو چھوتے ہوئے غریب تر اور امیرترقی کے زینے چڑھتے ہوئے امیر تر ہوتاچلا جا رہا ہے .ایک طرف ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی ہے جہاں ایک خالی پلاٹ بھی کروڑوں کا ہے. وہاں اونچے اونچے محلات بن رہے ہیں اور ان پر ایسے انداز سے ماربل تھوپاجا رہا ہے جیسے کسی زمانے میں دیہات میں عورتیں دیواروں پر اوپلے تھوپ دیتی تھیں‘ جبکہ ایک طرف غریبوں کی جھگیاں ہیں جن کا کوئی سہارا نہیں ہے اور انہیں بنیادی ضروریات بھی میسر نہیں ہیں. یہ معاشی سطح پر ظلم ہے اور اسلام کے نظامِ عدل میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے.

ہمارے ہاں سوشل سکیورٹی کا نام تک نہیں ہے ‘حالانکہ ہمیں چاہیے تھا کہ ہم سوشل سکیورٹی کے تصور کو آگے لے کر چلتے.ہم نے تو اسے اختیار نہیں کیا‘جبکہ دنیا نے اس کو اختیار کرکے انتہا تک پہنچاکر دکھایا ہے. سیکنڈے نیوین ممالک یعنی ناروے‘ سویڈن اور ڈنمارک میں سوشل سکیورٹی کا اعلیٰ ترین نظام موجودہے.باقی فحاشی‘عریانی اورسیکس کے حوالے سے وہاں بدترین معاملہ ہے اور اس حوالے سے وہ معاشرہ سنڈاس بن چکا ہے. یہ الگ بات ہے‘لیکن روٹی تو ہر ایک کوملے گی . ملکہ کا بیٹا جہاں پڑھے گا وہیں ایک فقیر کا بیٹا بھی پڑھے گا.وہاں پرکوئی دو نظامِ تعلیم نہیں ہیں ‘جیسے ہمارے ہاں ہے کہ غریب کے بچوں کے لیے چٹائیوںوالے سکول ہیں جہاں درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر بچے پڑھتے ہیں‘جبکہ دوسری طرف AC اور دنیا کی تمام نعمتوں سے مالا مال پرائیویٹ سکول ہیں جن میں پندرہ پندرہ‘ بیس بیس ہزار فیس دے کر اُمراء کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں‘جبکہ وہاں امیر اور غریب کے بچے ایک ہی سکول میں پڑھتے ہیں. اسی طرح جس ہسپتال کے اندر ملکہ کا علاج ہو گا اسی ہسپتال میں غریب ترین آدمی کا بھی علاج ہوگا. صرف ایک بات میں نے وہاں دیکھی کہ ملکہ کے لیے ہسپتال میں ایک کمرہ reserve ہوتا ہے تا کہ اگر کسی وقت ملکہ کو ضرورت پڑ جائے اور ہسپتال میں جگہ نہ ہو تو بس وہ ایک کمرہ ملکہ کے لیے مختص رہے گا. باقی علاج وہی ہو گا جو ایک غریب کا ہوتا ہے. کوئی مزدور دورانِ مزدوری معذور ہو گیا ہے توساری عمر اس کو پینشن ملے گی. آپ اپنے آپ کو معذور ڈکلیئر کرا لیں تواس کے بعد آپ عیش کریں. ہمارے جو لوگ وہاں پر گئے ہیں‘انہوں نے غلط طور پراس کا فائدہ اٹھایا ہے. وہ کسی نہ کسی طریقے اوربہانے سے اپنے آپ کو ان فٹ قرار دلوا لیتے ہیں اور پھر یہاں آ کرعیش کرتے ہیں.ان کی پنشن یہاں آ رہی ہوتی ہے اورپاکستان کے ڈپٹی کمشنر کی تنخواہ اتنی نہیں ہے جتنی ان کی پنشن ہوتی ہے. بہرحال انہوں نے یہ کام کرکے دکھایا ہے اور جس طریقے سے وہاں علاج معالجہ کا معاملہ ہے ‘ایسا امریکہ میں بھی نہیں ہے. امریکہ اس اعتبار سے برا ملک ہے اوروہاں ہیلتھ کیئر اس سطح کی نہیں ہے. وہاں آپ کو علاج بہت مہنگے داموںخریدنا پڑتا ہے . پھر اس کے لیے انہوں نے ہیلتھ انشورنس کا نظام بنایا ہے.آپ ہرمہینے اپنی تنخواہ میں سے پیسے کٹواتے رہتے ہیں اور جب آپ بیمار ہوں تو انشورنس کمپنی آپ کو آپ کے علاج کے لیے پیسے دے گی. ظاہر بات ہے کہ اس میں بھی آپ نے انشورنس کے پیسے دیے تھے‘ تب ہی آپ کو یہ حق حاصل ہوا ہے‘ لیکن آپ انگلینڈ میں چلے جایئے تو علاج مکمل طور پر فری ہے اور برابری کی سطح پر ہے‘ یعنی امیر اور غریب کا کوئی فرق وہاں روا نہیں رکھا جاتا. ہمارے ایک بزرگ ہواکرتے تھے سراج الحق سیدصاحب‘اب اُن کا انتقال ہوچکا ہے‘ میں ایک دفعہ ان کے ساتھ برطانیہ گیا تھا. ان کے ایک بھائی بہت عرصے سے وہاں مقیم تھے اور ذیابیطس کے بہت پرانے مریض تھے ‘لیکن ان کا جس عمدہ طریقے سے وہاں پرعلاج ہوتا تھا‘اس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے. ہر ہفتے ایک شخص گھر پر آکر ان کے پائوں کے ناخن تراشتا تھا. وہ اس اندیشے کے پیش نظر کہ اگر اس نے خود ناخن کاٹا اورذرا سا زخم لگ گیا تو پھر ذیابیطس کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ اس کے اندر زہر پھیل جائے اور انگوٹھا کاٹنا پڑے . کیا آپ اس چیز کا اپنے معاشرے میں تصور کر سکتے ہیں؟