یہ تو اجتماعی سطح پر عدل ہے‘جبکہ ایک ہے عدالتی نظام.بعض لوگوں میں جھگڑے ہو جاتے ہیں یاایک دوسرے پر ظلم کر بیٹھتے ہیں ظلم کے حوالے سے وہ حدیث ہم پڑھ چکے ہیں: یَا عِبَادِیْ! اِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ ‘ وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُّحَرَّمًا ‘ فَـلَا تَظَالَمُوْا ’’میرے بندو! میں نے اپنے اوپر حرام کر رکھا ہے کہ کسی پر ظلم کروں اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام کر دیا ہے ‘لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو‘‘ معاشرے میں جب ظلم وزیادتی ہوتی ہے تو پھر جھگڑے ہوتے ہیں.ایک کہتا ہے کہ زمین کا یہ ٹکڑا میرا ہے اوردوسرا کہتا ہے کہ میرا ہے. اس طرح ایک مدعی بن کے کھڑاہو جاتا ہے اور ایک مدعا علیہ بن کر.اسی طریقے سے جرائم ہیں ‘جن کے مرتکبین کو سزا ملنی چاہیے. اب عدالت کا کام ہے کہ اچھی طرح واقعہ کی چھان بین کرے کہ اس شخص نے جرم کیا ہے یا نہیں ؟اس کے لیے ظاہر بات ہے کہ عدالتی نظام ہو گا‘گواہی کا معاملہ ہوگا اورمختلف طریقوں سے اس کا ثبوت فراہم کیا جائے گا .یہ وہ عدل ہے جو عدالت کی سطح پر ہوتا ہے‘ جسے عدل و انصاف کی فراہمی کہتے ہیں.

عدالتی نظام کے اصول وضوابط کے حوالے سے امام نووی دو بہت پیاری احادیث لائے ہیں.پہلی حدیث حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرم نے فرمایا: لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ یعنی نہ کوئی ظلم کرو اور نہ کسی قسم کا ظلم برداشت کرو.یہ ایک سنہرا اصول ہے‘ نہ کسی کونقصان پہنچاؤ اور نہ خود نقصان اٹھاؤ!