معاشرے کی اصلاح کے لیے سزاؤں کا نفاذ

آپ کو معلوم ہے کہ عیسائیوں کے ہاں جو تبلیغ ہے وہ نظری تبلیغ ہے ‘اور اس پر عمل درآمد اس دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے کہ اگر کوئی تمہارے داہنے گال پر تھپڑ مارے تو تم بایاں گال بھی پیش کردو .پھر یہ کہ کوئی نالش کر کے تم سے تمہارا جبہ لینا چاہے تو جبہ کے ساتھ اپنا کرتا بھی اُتار کر اس کو دے دو. یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اخلاقی اور روحانی اعتبار سے تعلیم ہے لیکن اس میں عدم توازن ہے. عدم توازن کیوں ہے؟ یہ بھی سمجھ لیجیے . حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں‘ وہ معاذ اللہ کوئی غلط بات تو نہیں کہہ سکتے! اصل میں نبی کی دعوت میں ایک خاص دور ہوتا ہے جب دعوت و تحریک کا تقاضا اور مصلحت اس میں ہوتی ہے کہ ظلم وزیادتی کو جھیلو ‘ برداشت کرو اور جوابی کارروائی مت کرو. بارہ برس تک مکہ مکرمہ میں حضور کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یہی حکم تھا کہ کفارِ مکہ تمہیں ماریں تو برداشت کرو‘تمہیں گالیاں دیں تو جوابی گالی مت دو‘ پتھر ماریں تو تم پھول پیش کرو. لیکن یہ اس دعوت و تحریک کی ایک مصلحت تھی‘قانون نہیں تھا . قانون تومدینہ منورہ میں آکر اترا ہے کہ اگر تمہارے اوپر کسی نے زیادتی کی ہے تو اسی کے برابر اس سے بدلہ لو! یہ معاشرے کی اصلاح کے لیے بہت ضروری ہے. حدوداللہ اور سزاؤں کا نفاذ بھی اسی مقصد کے لیے ہوتاہے.حدودا للہ کانفاذ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اللہ کو مجرم سے دشمنی ہو جاتی ہے‘بلکہ کسی شخص نے چوری کی ہے تو اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم اس لیے ہے تاکہ لوگوں کو ہوش جائے اور پھر کوئی چوری نہ کرے. 

یہ معاملہ ہم بہت عرصے سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ سعودی عرب میں جرائم کی شرح بہت ہی کم ہے‘ کوئی چوری نہیں‘ کوئی ڈاکہ نہیں ‘اس لیے کہ وہاں چوروں کے ہاتھ کٹتے ہیں‘ ڈاکوئوں کو شرعی سزا ملتی ہے ‘قاتل کی گردن اڑائی جاتی ہے.جمعہ کے روزریاض کی جامع مسجد کے باہر میدانِ عدل میں جلاد سب کے سامنے قاتل کی گردن اڑا دیتا ہے. یہ سب اس لیے ہے تاکہ لوگوں کو ہوش آ جائے اور آئندہ پھر کوئی اس جرم کا ارتکاب کرنے کی جرأت نہ کرے.یہی وجہ ہے کہ سعودی معاشرے کے اندر جرم نہ ہونے کے برابر ہے.پھر ہم نے یہی معجزہ اپنے پڑوسی اور برادر ملک افغانستان میںاُس وقت دیکھا جب طالبان نے وہاں اسلامی شریعت اور اسلامی سزاؤں کونافذ کیا.طالبان کو موقع ہی نہیں دیا گیاکہ وہاں اسلامی نظام آگے بڑھتا اور اس کی برکات کا ظہور پورے طور پر ہوتاجیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ہواتھا . حضوراکرم کے دور میں توجہاد اور قتال کا مرحلہ جاری رہا‘ اس لیے اس نظام کی برکات ابھی پورے طور پر ظاہر نہیں ہو رہی تھیں. حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی اسلامی انقلاب کے خلاف مزاحمتی اور انسدادی تحریکیں (counter-revolutionary movements) اُٹھیں اوران کو دبانے میں ساری توجہ صرف ہوئی. لیکن پھر جب عرب کے اندر حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں امن قائم ہوا ‘ حکومت مستحکم ہو گئی اور حکومتی رٹ مکمل طور پرنافذ ہو گئی تو پھر اسلام کی برکات کا مکمل طور پر ظہور ہوا .آپ کو معلوم ہے کہ افغانستان میں ابھی صرف چند شرعی سزائیں نافذ کی گئی تھیں کہ چوری اور ڈاکے جیسے جرائم یکسر ختم ہو گئے. ہمارے ہاں کہہ دیتے ہیں کہ اگر چور کا ہاتھ کاٹا جائے گاتو آدھا ملک ہاتھ کٹوں کا ہو جائے گا. ہرگز نہیں‘ یہ غلط پروپیگنڈا ہے .اس وقت واقعتاحال یہی ہے کہ خیانت‘چوری‘ دھوکہ دینا ‘ ڈاکے ڈالنا یہ سب ہو رہا ہے ‘لیکن اگر شرعی سزائیں نافذ ہوجائیں تو چند ہاتھ کٹیں گے اور بعد میں جرم ختم ہوجائے گا.ورنہ امریکہ جیسے ملک میں‘ جہاں تعلیم انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور وہ اپنے آپ کومہذب ترین سمجھتے ہیں‘وہاں بھی انتہائی گھناؤنے جرم ہو رہے ہیں.کسی بھی معاشرے سے جرم کو دیس نکالا نہیں دیا جا سکتا. یہ ناممکن ہے‘ بلکہ جرم توبڑھتا چلا جارہا ہے . اسلام میں سزاؤں کا سارا نظام معاشرے کی مصلحت کے لیے ہے.اگر ایک شادی شدہ شخص نے زنا کیا ہے تو اسے رجم کیجیے. ظاہر بات ہے کہ اس کے بعد زنا کا معاملہ بہت مشکل ہو جائے گا اور معاشرے میں خودبخود بہتری آجائے گی. اسی لیے یہ تعلیم دی گئی کہ معاف کرنا اپنی جگہ بہترہے‘ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے کی اصلاح اور بہتری کے لیے قصاص میں‘ بدلے میں‘ سزا دینے میں زندگی ہے. اس کو ایسے سمجھیں کہ جیسے کسی کے ہاتھ میں گنگرین ہو گیا ‘ ہاتھ جل گیا‘ سڑ گیا تو پورا بازو کاٹ دیتے ہیں. بازو جسم کا حصہ ہے ‘لیکن پورے جسم کو بچانے کے لیے بازو کوکاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے ‘ورنہ جسم میں زہر پھیل جائے گا اور موت واقع ہو جائے گی . اسی طرح ایک مجرم کی وجہ سے پورے معاشرے میں گند پھیل سکتا ہے‘ لہٰذا شادی شدہ زانی کو اگر آپ نے رجم کیا ہے یا قاتل کو جواباً قتل کیا ہے یا چور کا ہاتھ کاٹا ہے تو اس سے پورا معاشرہ ٹھیک رہے گا. 

الغرض زیرمطالعہ روایت میں یہ اصول دے دیا گیا کہ نہ کوئی ضرر پہنچائو اور نہ کوئی ضرر برداشت کرو.اپنے حق کوحاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرواور اگر کوئی ظلم اور زیادتی ہوئی ہے تو پھر اس کے لیے قصاص لو.یہ نہ ہو کہ آپ ہر بار اخلاقی تعلیم کے باعث ہمیشہ درگزر سے ہی کام لیں اور قصاص کو سرے سے ہی چھوڑ دیں.انفرادی معاملات میں معافی اور درگزر والا معاملہ بھی ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے. اگر آپ سمجھیں کہ ایک آدمی نے آپ کے خلاف کوئی اقدام کیا ہے ‘ لیکن اسے خود ہوش آ جائے گا‘اسے خود احساس ہو جائے گا کہ میں نے زیادتی کی ہے تو ٹھیک ہے آپ اسے معاف کر دیں‘ لیکن اصول یہ نہیں ہے. اصول یہ ہے کہ آپ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اپنا پورا زور لگائیں‘دلائل دیں‘اس کے لیے ثبوت پیش کریں. اس سے معاشرہ صحیح سطح پر برقرار رہے گا اور درحقیقت اسی سے معاشرے کے اندر صحت مند روایات پروان چڑھیں گی.