عدالتی نظام میں ایک معاملہ وکالت کا ہوتا ہے .اگر وکالت میں جھوٹ نہ بولا جائے تو یہ پیشہ جائز ہے‘لیکن ہمارے ہاں اس کے لوازم ہی یہ ہیں کہ جھوٹ بولو ‘ جھوٹ بلواؤ اور خلافِ واقعہ بیان دلواؤ. یہ حرام ہے. فرض کیجیے مجھ سے کوئی خطا ہو گئی ہے اور مجھے معلوم نہیں ہے کہ میرے ملکی قانون یا اسلامی شریعت میں میرے لیے کیاکیا رعایات ہیں.چنانچہ میں ایک وکیل کرتا ہوں اور وہ وکیل عدالت میں جا کر ان رعایتوں کو واضح کر دیتا ہے اور میں بچ جاتا ہوں.یہ ٹھیک ہے ‘کیونکہ عام آدمی تو قانون اور شریعت کی باریکیوں سے واقف نہیں ہوتے‘لہٰذا قانونی ماہرین عدالت میں جاکر مقدمہ کو آگے چلاتے ہیں. اسلامی شریعت میں قانون کے ماہرین’’ فقہاء‘‘ کہلاتے ہیں جو کسی کی طرف سے دفاع کر سکتے ہیں‘کسی فریق کی طرف سے جا کر اس کے مقدمے کو پیش کر سکتے ہیں. ہمارے ہاں عدالتی نظام میں یہ قانونی معاونت وکیل حضرات کرتے ہیں. چنانچہ آپ کا کوئی مقدمہ ہے‘ لیکن آپ اس کو صحیح طور پر عدالت میں پیش کرنے کی استطاعت اور صلاحیت نہیں رکھتے تو آپ ایک وکیل کی مدد حاصل کر سکتے ہیں ‘ لیکن اس میںجھوٹ نہیں ہونا چاہیے ‘ورنہ یہ حرام ہو جائے گا.