اب ہم دوسری حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں .یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عباسi سے مروی ہے جو حضور کے چچا حضرت عباسؓ کے بیٹے ہیں اور انہیں ’’حِبْرُ الْاُمَّۃ‘‘ کہا گیا ہے کہ یہ امت میں قرآن مجید کے بہت بڑے عالم تھے. حضرت عبداللہ بن عباسi روایت کر رہے ہیں کہ حضور نے فرمایا: 

لَـوْ یُعْطَی النَّاسُ بِدَعْوَاھُمْ ‘ لَادَّعٰی رِجَالٌ اَمْوَالَ قَوْمٍ وَّدِمَائَ ھُمْ‘ وَلٰـکِنَّ الْبَـیِّنَۃَ عَلَی الْمُدَّعِیْ وَالْیَمِیْنُ عَلٰی مَنْ اَنْکَرَ 
’’اگر لوگوں کو ان کے دعویٰ کے مطابق (بلاتحقیق) دے دیا جائے تو لوگ دوسروں کے اموال اور خون پر دعویٰ کرنے لگیں ‘لہٰذا اصول یہ ہے کہ مدعی ثبوت پیش کرے اور مدعا علیہ اگر انکاری ہو تو قسم اٹھائے.‘‘

اس روایت میں اثباتِ دعویٰ کے حوالے سے ایک سنہری اصول دیا گیا کہ جس نے کسی چیز کا دعویٰ کیا ہے تو وہ اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے دلیل یا ثبوت پیش کرے گا اور جو مدعا علیہ ہے‘اس کے لیے قسم اٹھالینا کافی ہوجائے گا.مثلاً اگر کوئی دعویٰ کرے کہ یہ مکان میرا ہے‘ خدا کی قسم میرا ہے!تو اسے کہا جائے گا کہ یہ قسم یہاں نہیں چلے گی.اگر تم نے اس مکان کی ملکیت کا دعویٰ کیا ہے تو کوئی دلیل یا ثبوت یا گواہ لاؤ.بغیر دلیل اور ثبوت کے تمہارا دعویٰ قابل قبول نہیں ہے .دوسری طرف جو مدعا علیہ ہے اس کے لیے دلیل ضروری نہیں ہے‘ اگر وہ حلف اٹھالے تو بھی فیصلہ اس کے حق میں ہو جائے گا.اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے قبضہ کا دعویٰ کیا ہے تو آپ کو اپنے قبضے کا ثبوت فراہم کرنا ہے کہ یہ میری چیز ہے‘جبکہ جس کے قبضے میں ہے اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ثبوت پیش کرے‘لہٰذا اگر وہ قسم کھا لے‘حلفیہ بیان دے دے تو دعویٰ باطل ہوجائے گا.

زیر مطالعہ روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر لوگوں کو ان کے دعووں کے پیش نظرجو وہ مانگ رہے ہوں‘ جو وہ دعویٰ کر رہے ہوں‘ جس چیز پر اپنا حق جتلا رہے ہوں دے دیا جائے تو اس طرح سارے لوگ دوسرے لوگوں کے اموال کے اوپر قبضہ کرنے کے لیے دعوے لے کر کھڑے ہو جائیں گے‘بلکہ ان کی جانوں کے بھی مدعی بن جائیں گے.مثلاً قتل کا معاملہ ہے اور آپ نے جھوٹے طور پر قسم کھالی ہے کہ میں نے اسے فلاں شخص کو قتل کرتے ہوئے دیکھا تھا تو آپ کے بیان پر اُس شخص کو پھانسی پر نہیں لٹکا دیا جائے گا‘بلکہ گواہ پر جرح ہو گی اور دیکھا جائے گاکہ واقعتا یہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹا الزام لگارہا ہے.اس کے بیان میں کوئی تضاد تو نہیں ہے. صرف قسم کھانے کی بنیاد پر کسی کا جرم ثابت نہیں ہو جائے گا.اسی طرح زنا کے معاملہ میں بھی جب تک چار گواہ نہیں آئیں گے تو وہ ثابت نہیں ہوگا. 

آپ کو معلوم ہے کہ دلیل اور ثبوت نہ ہونے کی بنا پر قاضی شریح ؒ نیحضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقدمہ خارج کر دیا تھا.معاملہ کچھ یوں تھا کہ حضرت علیؓ کی زرہ چوری ہوگئی اور ایک یہودی کے ہاں سے برآمد ہو گئی. مقدمہ عدالت میں آیا . حضرت علیؓ مدعی اور یہودی مدعا علیہ ہے. ایک طرف امیر المؤمنین‘بہت بلند مرتبہ صحابی‘ حضور کے داماد اور حضور کے چچازاد بھائی‘جبکہ دوسری طرف ایک عام یہودی تھا.قاضی شریح نے کہا:اے ابوالحسن!آپ اپنا دعویٰ پیش کیجیے. حضرت علیؓ نے فرمایا: قاضی صاحب!آپ نے پہلی ناانصافی تو یہیں کر دی.آپ کو کہنا چاہیے تھا:اے علی ! اپنا دعویٰ پیش کرو‘جبکہ آپ نے مجھے ابوالحسن کہہ کر پکارا ہے ‘حالانکہ کنیت کے ساتھ پکاراجانا عزت و تکریم کے لیے ہوتا ہے. اس وقت نہ تو میں خلیفۃ المسلمین ہوں اورنہ میں کوئی بلند مرتبہ صحابی.اس وقت میری حیثیت تو بس ایک مدعی کی ہے. پھر آپؓ نے اپنا دعویٰ پیش کیا کہ یہ زرہ میری ہے . قاضی نے کہا:گواہ لایئے! آپؓ نے کہا:گواہ حاضر ہیں.ایک گواہ میرا بیٹا حسن ہے اور دوسرا گواہ میرا غلام قنبرہے. اب سنیے‘قاضی صاحب کہتے ہیں کہ دعویٰ کے ساتھ بیٹے اور غلام کی گواہی قبول نہیں ہے‘کوئی اور ہے تو لایئے! چونکہ یہ امکان موجودہے کہ بیٹا اور غلام طرف داری کر سکتا ہے‘لہٰذا ان کی گواہی قبول نہیں ہے.اس پر حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میرے پاس تو کوئی اور گواہ نہیں ہے .اس پر قاضی صاحب نے فیصلہ حضرت علیؓ کے خلاف دیا اور اُن کا دعویٰ خارج کردیا.