یہ ہے آزاد عدلیہ کی مثال کہ قاضی نے وقت کے خلیفہ کے خلاف فیصلہ دیا اور خلیفہ نے بھی بغیر کسی تردّد کے اس فیصلہ کو قبول کیا.آج کل ہمارے ملک میں بھی آزاد عدلیہ کی تحریک چل رہی ہے.انتظامیہ اگر عدلیہ کے تابع نہ ہو تو وہ لازماً ظلم کرے گی‘سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نہ کرے. کیونکہ اصول آپ کو معلوم ہے کہ 

Authority tends to corrupt and absolute authority corrupts absolutely. 

یعنی جہاں اختیار ہوتا ہے ‘ طاقت ہوتی ہے تو وہاں کرپشن کا امکان پیدا ہوجاتا ہے اور جہاں انسان کو مکمل اختیار حاصل ہوجائے تو وہاں کرپشن کا امکان بھی لامحدود ہو گا. اس کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح کروڑوں کے غبن ہوئے ہیں اور کس طرح ہماری بہترین کمپنیوں اور اداروں کو نجکاری کے نام پر کوڑیوں کے دام بیچاگیا ہے. اس ساری لوٹ مار سے قوم کو بے حد و حساب نقصان پہنچایا گیا ہے. غریب آدمی پس رہا ہے‘ لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں.ایک ماں نے اپنی تین بچیوں سمیت ریلوے انجن کے سامنے کود کر اپنی جان کیوں دے دی؟ اس لیے کہ یہاں معاشی ظلم ہے اور یہاں سماجی عدل نہیں ہے.

ایک تو اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی ہے‘ اور ایک عدالتی نظام اور اس سطح پر عدل کے تقاضے ہیں.حضور نے اس کے لیے بھی بہترین اصول بتائے ہیں جوآج بھی دنیا میں مانے جاتے ہیں. پہلا اصول یہ ہے کہ دونوں فریقوں کی بات سنے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرو. دوسرا اصول یہ ہے کہ شک کافائدہ ملزم کو پہنچے گا اور شک کی بنا پر آپ کسی کو سزا نہیں دے سکتے. یہ تمام اصول محمد رسول اللہ نے دیے ہیں .اسی طرح ایک اصول یہ ہے کہ اگر آپ نے کوئی دعویٰ کیا ہے تو ثبوت پیش کرناآپ کے ذمے ہے‘ ورنہ وہ دعویٰ خارج ہوجائے گا‘البتہ مدعا علیہ کی قسم کا بھی اعتبار ہوگا.

متذکرہ بالا مقدمہ میں حضرت علیؓ مدعی تھے کہ یہ زرہ میری ہے اور یہودی کہہ رہا تھا کہ یہ میری ہے ‘ وہ مدعا علیہ تھا.اب پہلا مرحلہ یہ تھا کہ دلیل لایئے ‘ گواہ لایئے‘ نہیں ہے تو دعویٰ خارج. فرض کیجیے کوئی گواہ بھی آ جاتا ہے مگر مدعا علیہ قسم کھاکر کہہ دیتا ہے کہ یہ چیز میری ملکیت ہے تواس صورت میں بھی مدعا علیہ کی قسم کو تسلیم کیا جائے گا اور دعویٰ خارج کردیا جائے گا. اس لیے کہ قبضہ فی نفسہ ایک دلیل ہے.آج بھی دنیا میں مانا جاتا ہے کہ ملکیت کے دس میں سے نو حصے قبضہ ہے.چنانچہ آپ مدعی بن کر آگئے ہیں تو آپ دلائل لائیں اور جو قابض ہے اُس کے پاس توقبضہ خود ایک دلیل موجود ہے.