امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے متعلق یہ بات بہت اہم ہے کہ یہ قرآن حکیم کی ایک جامع اصطلاح ہے اور یہ قرآن میں ایک وحدت کے طور پر بیان ہوئی ہے. چنانچہ قرآن مجید کے دس مقامات پر یہ دونوں ایک جامع اور مربوط اصطلاح کی شکل میں آئے ہیں اوران میں سے چند آیات میں نے ابتدا میں آپ کو سنائی ہیں. سورۂ لقمان میں حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتوں کا تذکرہ ہے‘جس میں سے ایک نصیحت یہ ہے: 

یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿ۚ۱۷﴾ 
(لقمٰن) 
’’اے میرے بچے!نماز قائم رکھ‘ نیکی کا حکم دے اور بدی سے روک‘ اور پھر جو کچھ تجھ پربیتے اسے برداشت کر. یقینا یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے.‘‘ (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان کون النھی عن المنکرمن الایمان… ظاہر بات ہے کہ بدی سے روکنے پر اشرار‘ بدمعاش اور بدقماش لوگ اس کی شدید مخالفت کریں گے. اب یہ مخالفت زبانی کلامی (verbel) بھی ہو سکتی ہے او ر بالفعل اقدام کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے‘ لہٰذا اس مخالفت کو برداشت کرو اور اس پر صبر کرو.

سورۃ الحج میں یہ آیت آئی ہے: 

اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ 
(آیت ۴۱
’’وہ لوگ جنہیں ہم زمین میں اقتدار عطا کر دیں تو وہ (۱) نماز کا نظام قائم کریں گے اور (۲) زکوٰۃ کا نظام قائم کریں گے اور (۳) بدی سے روکیں گے اور نیکی کا حکم دیں گے.‘‘

سورۂ لقمان کی آیت گویا حکمت اور فطرت کا تقاضا ہے‘اس لیے کہ حضرت لقمان نہ نبی تھے اور نہ کسی نبی کے پیروکار تھے. وہ ایک سلیم الفطرت اور سلیم العقل انسان تھے اوروہ جن نتائج تک پہنچے ہیںوہ گویا انسانی فطرت اور حکمت کا تقاضا ہے ‘اس لیے وہاں یہ اصطلاح واحد کے صیغے میں آئی ہے‘ جبکہ اس کی ایک بلند ترین سطح یہ ہو سکتی ہے کہ جو لوگ یہ کام کرنے والے ہیں‘اگر اللہ ان کو زمین میں اقتدار عطا فرما دے تو وہ حکومتی سطح پر بھی انہی کاموں کوجاری رکھیں گے.اس کا ذکر سورۃ الحج کی مذکورہ آیت میں ہوا ہے.

جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرقرآن مجید کے دس مقامات پر ایک اصطلاح کے طور پر لازم و ملزوم کی حیثیت سے آئے ہیں. ان کے علاوہ بے شمار احادیث بھی ایسی ہیں جن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک جامع اصطلاح کے طور پر بیان کیا گیا ہے. ان میں سے ایک حدیث پیش کرتا ہوں.اس کے راوی حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ ہیں‘وہ حضور سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: 

وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْھَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ اَوْ لَیُوْشَکِنَّ اللّٰہَ اَنْ یَبْعَثَ عَلَیْکُمْ عِقَابًا مِنْہُ ثُمَّ تَدْعُوْنَہٗ فَلَا یُسْتَجَابُ لَـکُمْ (۱
’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘(اے مسلمانو!) تم (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الفتن‘باب ماجاء فی الامر بالمعروف ونہی عن المنکر. لازماً نیکی کا حکم دو گے اور بدی سے روکو گے ‘ورنہ اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر ایسا عذاب بھیجے گا کہ پھر تم دعائیں مانگو گے لیکن اللہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا.‘‘