ابتدا میں‘میں نے جن آیات کی تلاوت کی ان میں دو آیات سورۂ آل عمران کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دینا اوربرائیوں سے روکنا ‘یہ اُمت مسلمہ کا فرضِ منصبی ہے. چنانچہ فرمایا گیا: 

کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ 
(آل عمران:۱۱۰
’’تم بہترین اُمت ہو جو نوعِ انسانی کے لیے نکالی گئی ہے (اور تمہارا کام یہ ہے کہ ) تم نیکی کا حکم دو‘ بدی سے روکو‘ اور اللہ پر اپنے یقین کو پختہ رکھو.‘‘ 

جو انسان بھی امربالمعروف اور خاص طور پر نہی عن المنکر کا علم لے کر کھڑا ہوتا ہے تو اسے طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.غیر تو پھر غیر ہیں‘اپنے ہی جان کے دشمن بن جاتے ہیں.ایسی صورتِ حال میں اللہ تعالیٰ پر پختہ یقین بہت ضروری ہے‘ اس لیے کہ اسی یقین ہی کی بدولت انسان کے اندر وہ قوت پیدا ہو گی جس سے وہ مخالفت کو برداشت کرسکے گا‘ تشدد کو جھیل سکے گا اور زیادتی کو سہہ سکے گا.

سورۂ آلِ عمران کی مذکورہ بالا آیت میں تو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو امت مسلمہ کا اجتماعی فرض قرار دیاگیا ہے‘جبکہ آیت ۱۰۴میں اسی حوالے سے ایک اور شکل بھی بیان ہوئی ہے .وہ یہ ہے کہ فرض کیجیے‘اُمت اپنے اس فرضِ منصبی کو بھول گئی ہو ویسے تو یہ پوری اُمت مسلمہ کا فرضِ منصبی ہے اور اسے پوری نوعِ انسانی کے اوپر اسی لیے اٹھایا گیا ہے کہ وہ پوری نوعِ انسانی کو نیکی کا حکم دے اوربدی سے روکے . گویا اس امت کو خدائی فوجدار کی حیثیت دے دی گئی ہے. لیکن فرض کیجیے کہ اُمت اس فرضِ منصبی کو بھول گئی ہے اور غفلت کی نیند سو گئی ہے تو ایسی صورتِ حال میں پھر یہ ضرور ہونا چاہیے کہ کچھ لوگ توایسے ہوں جو بیدار ہوں اور سوئی ہوئی امت کو جگانے کا کام کریں. جیسے حکیم محمد سعید مرحوم کے ادارے نے ایک سلوگن اختیار کیا تھا: ’’جاگو اور جگاؤ!‘‘ یہ بڑا اچھا سلوگن ہے کہ اس امت میں سے جو جاگ گئے ہیں یا جاگے ہوئے ہیں وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں‘ بلکہ دوسروں کو جگائیں.پھر جاگے ہوئے مل کر ایک امت بن جائیں.یعنی ایک اُمت تو سو ئی ہوئی ہے ہے تو وہ بھی اُمت ‘اس لیے کہ نام لیوا تو محمد کے ہیں پھر اس سوئی ہوئی اُمت میں سے کچھ لوگ لازماً جاگیں اور مل جل کر ایک امت بن کر باقی سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کا کام اجتماعی طو رپر کریں. اس کو انگریزی میں party within party یعنی ایک جماعت کے اندر ایک جماعت کہا جاتا ہے .سورۂ آلِ عمران کی آیت ۱۰۴ میں اسی کا ذکر ہے کہ ویسے تو یہ ساری اُمت مسلمہ کا فرضِ منصبی ہے کہ اس نے دعوت و تبلیغ ‘شہادت علی الناس اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کام کرناہے‘ لیکن اگر اُمت مسلمہ اپنا یہ فرض بھول جائے تو پھر کم ازکم کچھ لوگوں کو ضرور یہ کام کرنا چاہیے.فرمایا: 

وَلۡتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰۴﴾ 
(آل عمران) 
’’تم سے ایک ایسی امت میں وجود میں آنی چاہیے (یا تمہارے اندر سے کم سے کم ایسی ایک امت تو قائم رہنی چاہیے) جو نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے اور خیر کی طرف دعوت دے .اور وہی لوگ ہوں گے جو (اللہ تعالیٰ کے ہاں) کامیاب ہونے والے ہیں.‘‘

فلاح اور کامیابی کا وعدہ سوئی ہوئی امت سے نہیں ہے‘ہاں ان سوئے ہوؤں میں سے جوجاگ جائیں اور اپنے فرضِ منصبی کو پہچانیں اورپھر اس کے لیے تن من دھن لگائیں‘ وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں.