اب تک میں نے آپ کے سامنے یہ بات رکھی کہ بحیثیت مجموعی یہ دونوں گویا ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں. دو پہیوں پر گاڑی چلتی ہے‘ ورنہ ایک پر تو گھومتی ہی رہے گی‘آگے نہیں بڑھے گی.اس حوالے سے یہ بھی یاد رکھیے کہ ان دونوں میں سے نہی عن المنکر کی اہمیت زیادہ ہے. ہمارے ہاں ایک بہت بڑے طبقہ کو یہ مغالطہ ہوا ہے کہ نہی عن المنکر کی ضرورت نہیں ہے. بس نیکی کا حکم دیتے رہو‘ جب نیکی پھیلے گی تو منکر خودبخودمٹ جائے گا‘ جیسے روشنی آتی ہے تو اندھیرا خود بھاگ جاتا ہے. یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے . اگر صرف وہی کافی ہوتا تو قرآن مجید کی دس آیات میںدونوں کا تذکرہ ایک حیاتیاتی اکائی (organic whole) کے طور پر کیوں ہوتا؟ قرآن مجید (معاذ اللہ!) کوئی شاعری کی کتاب نہیں ہے اور نہ اس میں لفاظی اور مبالغہ آمیزی ہے. اس میں جو لفظ اور جو بھی حرف آیا ہے‘وہ اٹل اور لازم ہے اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے.درحقیقت یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں‘لیکن ان کو اگر علیحدہ علیحدہ کر کے دیکھیں گے تو ازروئے قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ نہی عن المنکر اہم تر ہے.

اربعین نووی کی زیر مطالعہ حدیث میں بھی صرف نہی عن المنکر کا ذکر ہے‘اس میں امر بالمعروف کا تو ذکر سرے سے ہے ہی نہیں.اس کے علاوہ میں نے اب تک جو دواحادیث آپ کے سامنے بیان کیں‘پہلی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور دوسری حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ‘ان میں بھی صرف نہی عن المنکر کا ذکر ہے.