زیر مطالعہ اربعین کی روایت میں نہی عن المنکر کے تین مراحل بیان کیے گئے ہیں.پہلا یہ ہے کہ تم میں سے جو کوئی بھی بدی کو دیکھے‘اس کا فرض ہے کہ قوت سے اور بزورِ بازو اسے روکے.اگر آپ کے پاس قوت ہے تبھی تو قوت استعمال ہو گی. عام حالات میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں بھی آپ کو قوت حاصل ہے وہاں یہ کام کرنا آپ کے لیے لازم ہو جائے گا.آپ اپنے گھر کے سربراہ ہیں تو اپنی فیملی کے اندر آپ پر امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ لازم ہو گا اور اگر آپ نہیں کرتے توآپ مجرم شمار ہوں گے. البتہ آپ کا دوسروں کے اوپر ظاہر بات ہے کوئی زور نہیں چل سکتا تو وہاں آپ پر فرض نہیں ہوگا ‘اس لیے کہ آپ کو قوت حاصل نہیں ہے. آپ کا بچہ نماز نہیں پڑھتا‘ حالانکہ اس کے اوپر نماز فرض ہو چکی ہے تو آپ اسے مار سکتے ہیں ‘ سزا دے سکتے ہیں‘ لیکن کسی دوسرے کے بچے کو آپ نہیں مار سکتے. اگر انسان میں بزورِ بازو برائی کو روکنے کی استطاعت نہ ہو توپھر دوسرامرحلہ یہ ہے کہ انسان زبان سے برائی کوبرا کہے.واضح رہے کہ عدمِ استطاعت کے دو پہلو ہو سکتے ہیں. ایک یہ کہ آپ میں ہمت نہیں ہے کہ آپ کھڑے ہو کر اس باطل کا مقابلہ کر سکیں توکم ہمتی کی وجہ سے بھی عدمِ استطاعت ہوسکتی ہے.دوسرا یہ ہے کہ ماحول ایسا ہے کہ جس میں بولناگویا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہو‘زبانوں پر تالے پڑگئے ہوں تو اس صورت میں کم سے کم زبان سے تو بات کرو.یعنی اگر اس کے خلاف تمہارے پاس طاقت نہیں ہے تو زبان سے تو اسے برا کہو.اسی لیے فرمایا گیا: اَلَا اِنَّ اَفْضَلَ الْجِھَادِ کَلِمَۃُ حَقٍّ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِرٍ (۱’’سن لو کہ افضل ترین جہاد یہ ہے کہ ایک ظالم حکمران کے سامنے حق کی بات کی جائے‘‘.اس کے افضل ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس میں اندیشہ ہوگا کہ وہ تمہاری گردن اڑا دے گا. 

نہی عن المنکر کا تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان کے پاس نہ بزورِ بازو برائی کو روکنے کی طاقت ہے اور نہ زبان سے برائی کو برا کہنے کی ہمت ہے .اب اس عدمِ استطاعت کے بھی دو پہلو ہیں.ایک تو یہ کہ کوئی شخص گونگا ہے اوروہ بول ہی نہیں سکتا اور اس میں یہ بھی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ لکھ کر بات کر سکے. دوسرا یہ ہے کہ اس میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ مصائب کو برداشت کرسکے ‘تو اس صورت میں وہ کم ازکم دل میں تو برائی کو برا جانے. آپ کسی اور کو تو بدل نہیں سکتے‘لیکن دل کے اندر برائی کے خلاف نفرت کے ہونے سے کم ازکم آپ اور آپ کے اہل و عیال اس برائی سے بچ جائیں گے اور آپ اس ماحول کے رنگ میں نہیںرنگے جائیں گے . لیکن اس بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ کمزور ترین ایمان کی علامت ہے. اب ظاہر بات ہے کہ کمزور ترین ایمان کے بعد تو باقی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے بعد ایمان نہیں ہے. یعنی آپ بدی کو دیکھیں اور آپ کو رنج و افسوس بھی نہ ہو‘آپ کے احساسات پر جوں بھی نہ رینگے‘آپ کو کوئی صدمہ بھی نہ ہوتو پھر ایمان سرے سے موجود نہیں ہے. (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الفتن‘باب ماجاء فی الامر بالمعروف ونہی عن المنکر. اس کے لیے میں مثال دیا کرتا ہوں کہ اگر آپ کا بچہ شدید بیمار ہے. آپ نے ہر طرح کا علاج کرا لیا ہے‘ ڈاکٹری علاج بھی کرا لیا‘حکیموں سے علاج بھی کرا لیا‘ ٹونے ٹوٹکے سے بھی مدد لے لی ‘لیکن شفا نہیں ہو رہی. آپ بالکل بے بس ہیں اور کچھ بھی نہیں کر سکتے.لیکن کیا وہ بچہ اگر درد میں تڑپ رہا ہو تو آپ آرام سے سو جائیں گے؟ یہ تو نہیں ہوگانا!اسی طرح اگر آپ بدی کو قوت کے ساتھ نہیں روک سکے یا بدی کے خلاف زبان سے بھی جہاد نہیں کر سکے تو کم سے کم دل سے تو نفرت کیجیے ‘جیسے کہ اپنے بچے کو دیکھ کر آدمی کو رنج ہوتا ہے‘ افسوس ہوتا ہے‘ صدمہ ہوتاہے‘ کم سے کم یہ تو ہو.اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر آپ اپنے ایمان کی خیر منائیے.