قبل ازیں میں آپ کو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا ترجمہ سنا چکا ہوں‘ اب میں چاہتا ہوں کہ اس حدیث کو ذرا وضاحت سے آپ کے سامنے رکھوں‘ اس لیے کہ اس میں نہی عن المنکر کے مراحل کا بہت تفصیل سے تذکرہ ہے اور اس میں اُمت کے لیے اس ضمن میں واضح راہنمائی آجاتی ہے.رسول اللہ نے فرمایا: مَا مِنْ نَبِیٍّ بَعَثَہُ اللّٰہُ فِیْ اُمَّۃٍ قَبْلِیْ ’’کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جسے اللہ نے مجھ سے پہلے کسی امت میں مبعوث کیا ہو‘‘ اِلاَّ کَانَ لَہٗ مِنْ اُمَّتِہٖ حَوَارِیُّوْنَ وَاَصْحَابٌ ’’مگر یہ کہ لازماً اس کی اُمت میں سے کچھ نہ کچھ اصحاب اور کچھ نہ کچھ حواری ضرور ہوتے تھے‘‘.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ حواری تھے اور حواری کا لفظ خاص طو رپر حضرت عیسیٰ کے ساتھیوں کے لیے قرآن میں استعمال ہوا‘جبکہ حضوراکرم کے ساتھیوں کے لیے صحابہ کا لفظ آیا ہے اور یہاں پر دونوں الفاظ اکٹھے آ گئے ہیں.یہ حواری اور اصحاب کیا کرتے تھے‘اس بارے میں رسول اللہ نے جو فرمایا وہ بلاغت و فصاحت کی بہت اونچی مثال ہے.آپؐ نے فرمایا کہ وہ دوکام کرتے تھے‘پہلا کام یہ کرتے تھے: یَاْخُذُوْنَ بِسُنَّتِہٖ ’’اپنے نبی کی سنت کو مضبوطی سے تھامتے تھے‘‘ جیسے ہم حضور اکرم کا یہ فرمان پڑھ چکے ہیں: فَعَلَیْـکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ ‘ تَمَسَّکُوْا بِھَا‘ وَعَضُّوْا عَلَیْھَا بِالنَّوَاجِذِ ’’پس تم میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت (طریقہ) کو لازم پکڑنا اور اسے داڑھوں سے قابو کرنا‘‘ دوسرا کام یہ کرتے تھے: وَیَـقْتَدُوْنَ بِاَمْرِہٖ ’’اور اپنے نبی کے حکم پر عمل پیرا ہوتے تھے.‘‘

آگے رسول اللہ نے فرمایا: ثُمَّ اِنَّھَا تَخْلُفُ مِنْ بَعْدِھِمْ خُلُوْفٌ ’’پھر (ہمیشہ ایسا ہوتا رہا کہ) ان کے بعد ناخلف لوگ آ جاتے تھے‘‘.دیکھئے یہ عمرانیات کا بہت بڑا قاعدہ بیان ہو رہا ہے کہ ہر کمال کے بعد زوال بھی آتا ہے. ہر نبی کی آمد پر اس کے کچھ ساتھی بن گئے .ان کی کاوشوں سے معاشرے میں بہت نیکی پھیل گئی اور معاشرے میں بہت اچھائی آ گئی.وقت گزرتا گیا اور رفتہ رفتہ شیطان اپنا کام کرتا رہا. شیطان کے ایجنٹ انسانوں میں سے بھی ہیں اور جنات میں سے بھی ‘تو ان کی کارروائیوں سے پھر زوال توآتا ہی ہے .جیسے حضور کی جماعت کو بھی زوال آیا. خلافت راشدہ تیس برس تک قائم رہی اوراس کے بعد رفتہ رفتہ ملوکیت آگئی.رسول اللہ نے فرمایا کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ناخلف لوگ پیدا ہوجاتے ہیں اور وہ کرتے کیا ہیں؟دیکھئے رسول اللہ کی فصاحت وبلاغت کہ آپؐ نے ان کے بھی دو ہی کام بتائے.پہلا یہ کہ : یَـقُوْلُوْنَ مَا لَا یَفْعَلُوْنَ ’’وہ کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے‘‘ یعنی نیکی کی ڈینگیں مارنا‘ اپنے تقویٰ اور تدین کا اشتہار دینا‘ یا لوگوں کو نیکی کی تلقین کرنا لیکن خود اس پر عمل نہ کرنا.اور دوسراکام یہ تھا کہ : وَیَفْعَلُوْنمَا لَا یُـؤْمَرُوْنَ ’’اور وہ کرتے وہ کام تھے جن کا حکم ہی نہیں ہوا تھا‘‘.یعنی نئی سے نئی بدعات و رسومات ‘ نئی سے نئی تقریبات‘ نئے سے نئے جشن. 

جب یہ ناخلف لوگ پیدا ہوجائیں تو پھر نبی کے بچے کھچے اصحاب وحواریوں کا طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے‘اس بارے میں رسول اللہ نے فرمایا: فَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِیَدِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ ’’پس جو بھی ان کے خلاف ہاتھ سے جہاد کرے گا تو وہ مؤمن ہے‘‘.یہ بڑا اہم نکتہ ہے اور میں نے اپنی کتاب میں اس پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے کہ کیا کسی فاسق اور فاجر حاکم کے خلاف بغاوت ہو سکتی ہے یا نہیں؟ یہ ایک بڑا حساس معاملہ ہے. علماء کی اکثریت اسی بات کی قائل ہے کہ فاسق اور فاجر حکمران کے خلاف تب تک بغاوت جائز نہیں جب تک کہ وہ بدی کا حکم نہ دے. ایک تو یہ ہے کہ وہ خود بدی کا ارتکاب کر رہا ہے‘ اس کے قول و فعل میں تضاد ہے‘اس نے مختلف بدعات ایجاد کر لی ہیں اور وہ اپنے محل کے اندر عیاشیاں کر رہاہے‘لیکن وہ کسی کو بدی کا حکم نہیں دے رہا تو اس وقت تک اس کے خلاف خروج اور مسلح بغاوت کو علماء کی اکثریت صحیح نہیں سمجھتی.لیکن میں اس معاملے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کی رائے کا قائل ہوں کہ فاسق و فاجر حکمران کے خلاف بغاوت ہو سکتی ہے ‘لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پہلے اتنی طاقت مہیا ہو جائے کہ کم سے کم ظاہری حالات وواقعات کے مطابق کامیابی یقینی نظر آئے. پھر کامیابی ملے یا نہ ملے‘ یہ بعد کی بات ہے ؎

شکست و فتح میاں اتفاق ہے لیکن 
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا!

اگر آپ ایسے ناخلف لوگوں کے خلاف جہاد بالید یعنی قتال نہیں کر سکتے تو پھر اس کااگلا درجہ یہ ہے : وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِلِسَانِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ ’’اور جو ان سے جہاد کرے گا اپنی زبان سے تو وہ بھی مؤمن ہے‘‘.قتال سے کم تر درجہ یہ ہے کہ زبان سے جہاد کرو‘ تنقیدیں کرو‘ برملا کرو‘ جلسوں میں کرو‘ سرعام کرو‘ چوکوں میں کھڑے ہو کر کرو‘ نعرہ لگائو کہ یہ غلط ہے!اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کے ذریعے سے قوت بہم پہنچے گی. اگر یہ نہیں کریں گے تو لوگ کیسے جمع ہوں گے اوربدی کا استیصال کرنے لیے طاقت کہاں سے آئے گی؟ اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ: وَمَنْ جَاھَدَھُمْ بِقَلْبِہٖ فَھُوَ مُؤْمِنٌ ’’اور جو ان کے خلاف اپنے دل سے جہاد کرے گا تووہ بھی مؤمن ہے‘‘. دل سے جہاد یہ ہے کہ آپ کے دل میں اس کے لیے نفرت ہے.اگر آپ کے دل کے اندر واقعتانفرت ہوگی تو آپ کے وجود سے وہ ظاہر ہو گی.آپ تو خاموش رہیں گے ‘ لیکن آپ کے وجود سے ظاہر ہو گا کہ آپ کو اس چیز سے نفرت ہے. آپ کا طرزِعمل بتائے گا کہ آپ اس باطل کے ساتھ تعاون تو نہیں کر رہے‘آپ اس باطل کے تحت آرام سے پائوں پھیلا کر تو نہیں سوتے. یہ بھی درحقیقت ایک طرح کا جہاد ہے.

اس آخری درجے کو بیان کرنے کے بعد آپ نے فرمایا: وَلَـیْسَ وَرَائَ ذٰلِکَ مِنَ الْاِیْمَانِ حَبَّـۃُ خَرْدَلٍ ’’اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے ‘‘.اس سے آپ اندازہ کیجیے کہ اگر یہ نہیں ہے تو پھر ایمان نہیں ہے. کم سے کم دل سے نفرت‘ دل میں گھٹن‘ دل میں رنج وغم اور صدمہ تو ہونا چاہیے کہ یہ ماحول کدھر جا رہا ہے اور یہ کیا رنگ ہے جو ہمارے معاشرے پر چڑھتا جا رہا ہے.ہمارے معاشرے میں بے حیائی‘ عریانی اور منکرات کا طوفان آ رہا ہے(آج کل تو منکرات اور بے حیائی و فحاشی کو ثقافت اور آرٹ کے بڑے خوبصورت نام دیے جا رہے ہیں) ان پر آپ کو رنج و صدمہ تو کم سے کم ہونا چاہیے. اگر یہ بھی نہیں ہے تو آپ کے اندر ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے.