آج کے موضوع کے حوالے سے ایک حدیث قدسی بہت چونکا دینے والی ہے. یہ حدیث مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے مرتب کردہ ’’خطباتِ جمعہ‘‘ میں موجود ہے. اکثر تھانوی مساجد میں یہ خطبے پڑھے جاتے ہیں اور خطبہ ٔثانیہ میں یہ حدیث پڑھی جاتی ہے.حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: اَوْحَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلٰی جِبْرِیْلَ علیہ السلام : اَنِ اقْلِبْ مَدِیْنَۃَ کَذَا وَکَذَا بِاَھْلِھَا ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو وحی کی کہ فلاں فلاں بستیوں کو ان کے رہنے والوں پر الٹ دو‘‘. ایسا عذابِ الٰہی قومِ لوط اور بہت سی قوموں پر آیا ہے. قَالَ: یَارَبِّ! اِنَّ فِیْھِمْ عَبْدَکَ فُلَانًا لَمْ یَعْصِکَ طَرْفَۃَ عَیْنٍ حضور فرماتے ہیں کہ ’’اس پر حضرت جبرائیل ؑ نے عرض کیا: پروردگار! ان میں توتیرا فلاں بندہ بھی ہے(جو اتنا نیک‘ اتنا زاہد اوراتنا عبادت گزار ہے )کہ اس نے کبھی پلک جھپکنے جتنی دیر بھی تیری معصیت میں بسر نہیں کی‘‘. اب کسی کی نیکی ‘ تقویٰ اور زہد کا اندازہ آپ اس سے کیجیے کہ یہ گواہی دینے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں اور اللہ کی جناب میں گواہی دے رہے ہیں. آپ کو معلوم ہے کہ اللہ کی جناب میں تو ابوجہل بھی جھوٹ نہیں بولے گا‘اور فرشتے کے جھوٹ بولنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. قَالَ فَقَالَ: اقْلِبْھَا عَلَیْہِ وَعَلَیْھِمْ‘ فَاِنَّ وَجْھَہٗ لَمْ یَتَمَعَّرْ فِیَّ سَاعَۃً قَطُّ(۱حضور فرماتے ہیں کہ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:الٹو ان بستیوں کو پہلے اس پراور پھر دوسروں پر ‘اس لیے کہ اس کے چہرے کا رنگ میری (غیرت اور حمیت کی )وجہ سے کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بدلا‘‘. فرض کیجیے آپ کو کوئی گالی دے اور آپ میں تھوڑی سی بھی طاقت ہے تو کیا آپ اسے جانے دیں گے؟ اگر طاقت نہیں ہے‘ گالی دینے والا بہت طاقتور ہے اور آپ کمزور ہیں تو کم سے کم آپ کا چہرہ تو سرخ ہو جائے گانا! اس لیے کہ غیرت و حمیت کا بھی کچھ تقاضا ہوتاہے. مذکورہ بالا حدیث قدسی میں بھی اللہ عزوجل نے یہی فرمایا کہ اس کے چہرے کا رنگ تک کبھی نہیں بدلا‘حالانکہ ان بستیوں کے اندر بدی پھیلتی رہی‘ان میں منکرات کی اشاعت ہوتی رہی اور یہ آرام سے اپنی عبادت میں لگا رہا: ؎

مست رکھو ذکر و فکر ِصبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے!

معاشرے میں کیا ہو رہا ہے‘ اسے پتا ہی نہیں ہے. بس اپنی خانقاہ میں بیٹھا ہوا ہے‘ کوئی اگر آ گیا تو اسے کلمہ خیر سنا دیا ‘ورنہ کچھ نہیں. اللہ اللہ خیر سلا!یعنی جو اس کے مرید ہو گئے ان کا تزکیہ تو وہ کر رہا ہے لیکن باقی ماحول سنسان ہے. باہر نکل کر وہ اپنا کردار ادا نہیں کر رہا ‘جس کے بارے میں اقبال نے کہا ہے ؎

نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم ِشبیریؓ 
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری!

(۱) رواہ البیھقی فی شعب الایمان. بحوالہ مشکاۃ المصابیح‘ کتاب الآداب‘ باب الامر بالمعروف‘ الفصل الثالث