اب میں تیسری بات آپ سے عرض کر رہا ہوں کہ کسی معاشرے میں اگر کوئی بدی جڑ پکڑ جائے اور اتنی پھیل جائے کہ پھروہ معاشرہ عذابِ الٰہی کا مستحق ہو جائے تو اس صورت میں جو عذاب آتا ہے‘ قرآن مجید کے دو مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سے صرف وہ لوگ مستثنیٰ ہوتے ہیں جو بدی کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں‘ حکم دیتے رہیں‘ اپنی سی کوشش کرتے رہیں‘باقی سب اس عذاب کی پکڑ میں آجاتے ہیں. سورۃ الاعراف میں بنی اسرائیل کے ایک خاص قبیلے کا ایک واقعہ مذکور ہے. وہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ آباد تھااور ان کا ذریعہ معاش ماہی گیری تھا ‘یعنی مچھلی پکڑنا‘ اسے کھانا بھی اور بیچنا بھی . یہودیوں کے ہاں چونکہ یوم السبت کی حرمت ہے اصل میں تو ان کے لیے حرمت والا دن یوم الجمعہ ہی تھا‘ لیکن انہوں نے خود اپنی شرارتِ نفس سے یوم السبت اپنا لیا‘ اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر اسی کی حرمت لازم قرار دے دی چنانچہ ہفتہ کا پورا دن ان کے لیے ہر قسم کا کاروبارِ زندگی حرامِ مطلق تھا. اس قدر سخت حکم تھا‘جبکہ ہمارے ہاں یہ حکم صرف جمعہ کی اذان سے لے کر نمازِ جمعہ کی ادائیگی تک ہے. بفحوائے: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۹﴾فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانۡتَشِرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ وَ ابۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ کَثِیۡرًا لَّعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿۱۰﴾ 
(الجمعۃ) 
’’اے ایمان والو! جب تمہیں پکارا جائے نماز کے لیے جمعہ کے دن تو دوڑو اللہ کے ذکر کی طرف اور کاروبار چھوڑ دو.یہی تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو.پھر جب نماز پوری ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اوراللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو یاد کرو کثرت سے تاکہ تم فلاح پاؤ.‘‘
یعنی جب اذان ہوجائے توتمام کاروبار چھوڑ کر جمعہ کے لیے نکل کھڑے ہو اور جب جماعت سے فارغ ہوجاؤ تو کاروبار جائز ہے‘بلکہ امر کے صیغہ میں فرمایاکہ جاؤ اللہ کا فضل تلاش کرو! کس قدر آسانیاںہیں شریعت محمدیؐ میں. یہی حکم اگر چوبیس گھنٹوں پر پھیلا دیا جائے کہ جمعرات کے غروبِ شمس سے اگلے دن کے غروب تک ہر طرح کا کاروبار حرام ہے تو یقینا یہ سخت حکم ہو گا. یہودیوں پر یہ حکم ہفتہ کے دن کے لیے تھا کہ پورا دن کوئی کاروبار نہیں کرنا. وہاں معاملہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے جانوروں کو بھی شعور دیا ہے تو مچھلیوں کو اندازہ ہو گیا کہ ہفتہ کا ایک دن ایسا ہے جس میں یہ ہمیں پکڑتے ہی نہیں‘جبکہ باقی چھ دن تو ہماری جان پربنی ہوتی ہے . چنانچہ ہفتے کے دن مچھلیاں ساحل کے قریب اس شان سے آتی تھیں کہ اٹھلا رہی ہیں‘ چھلانگیں لگا رہی ہیں اور یہ بیچار ے ’’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کے مصداق دیکھ رہے ہیں‘لیکن پکڑ نہیں سکتے‘اس لیے کہ یہ حرام ہے. 

اس پر شیطان نے انہیں ورغلایا کہ کوئی حیلہ کروتو انہوں نے یہ حیلہ کیا کہ ہفتہ کے دن ساحل سمندر کے قریب بڑے بڑے گڑھے کھودتے اور نہر کی شکل میں سمندر کا پانی ان میں لے آتے تو مچھلیاں بھی پانی کے ساتھ ان گڑھوں میں آجاتیںاور شام کو ان کی واپسی کا راستہ بندکر دیتے. مچھلیاں ان تالاب نما گڑھوں میں محصور ہو کر رہ جاتیں اور وہ اگلے روز اتوار کو جاکر انہیں پکڑ لیتے تھے. یہ ہوتا ہے حیلہ. یوم السبت کی اصل حکمت تویہ تھی کہ ہفتہ کا پورا دن تم یادِ الٰہی‘ عبادت و ریاضت اور دعا و مناجات میں بسر کرو‘ تورات کی تلاوت کرو.یعنی اس دن دنیوی کاروبار نہ کرو اور یہ کام کرو!لیکن وہ کام تو تم نے کیا نہیں .ٹھیک ہے تم نے مچھلیاں نہیں پکڑیں ‘لیکن سارا دن تو لگے رہے گڑھے کھودنے ‘ مچھلیوں کو ادھر لانے اور یہاں پر انہیں بند کرنے میں. اس حیلہ پر قوم تین حصوں میں تقسیم ہو گئی. ایک تو وہ لوگ تھے جو دھڑلے سے یہ کام کر رہے تھے. ایک وہ تھے کہ جو خود تو یہ نہیں کر رہے تھے لیکن کرنے والوں کو روکتے بھی نہیں تھے. خاموش تھے کہ دفع کرو انہیں‘جو کرتے ہیں کرتے رہیں‘ ہمیں کیا!ایک وہ تھے جو خود یہ کام کرتے بھی نہیں تھے اورکرنے والوں کو روکتے بھی تھے. اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : 
فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖۤ اَنۡجَیۡنَا الَّذِیۡنَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ السُّوۡٓءِ وَ اَخَذۡنَا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا بِعَذَابٍۭ بَئِیۡسٍۭ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ ﴿۱۶۵﴾ 
(الاعراف) ’’پھر جب انہوں نے نظرانداز کر دیا اس نصیحت کو جو انہیں کی جار ہی تھی‘ تو ہم نے بچا لیا ان کو جو برائی سے روکتے تھے اور پکڑلیا ہم نے ان کو جو ظلم کے مرتکب ہوئے تھے بہت ہی برے عذاب میں‘ ان کی نافرمانی کے سبب.‘‘

اب یہاں پر ایک تفصیل طلب نکتہ ہے. بعض لوگ جو رجائیت پسندہیںاورروشن پہلو لوگوں کے سامنے زیادہ رکھناچاہتے ہیں‘ان کا کہنا یہ ہے کہ جن لوگوں نے واقعی حکم الٰہی کی خلاف ورزی کی ان پر تو عذاب آیا اور جنہوں نے ان کو روکا ان پر نہیں آیا ‘لیکن جنہوں نے روکا نہیں ان کا ذکر یہاں پرنہیں ہے . گویا ان کے بارے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ انہوں نے روکا تو نہیں‘لیکن ظاہر بات ہے انہوں نے خود تو گناہ کا ارتکاب نہیں کیا‘ لہٰذا ان کے لیے بھی بچائو کا ایک راستہ نکل آتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے عذاب سے ان کو بھی بچا لے گا . لیکن اکثر مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے اور نہی عن المنکرنہ کرنے والوں کے لیے بچاؤ کا کوئی راستہ نہیں ہے.انہوں نے نہی عن المنکر نہ کرکے گناہ کا ارتکاب کیا ‘اس لیے کہ انہیں حکم تھا کہ بدی سے روکیں‘لیکن جب نہیں روکا تو انہوں نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی‘ تو فسق (نافرمانی ) کا ارتکاب کرنے والوں کے اندر یہ بھی شامل ہیں. چنانچہ جنہوں نے روکا نہیں ان پربھی وہ عذاب آیا. چنانچہ سورۃ الانفال میں دو ٹوک الفاظ میں فرمایا گیا ہے: 

وَ اتَّقُوۡا فِتۡنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً ۚ 
(آیت ۲۵
’’اور بچو اُس عذاب سے جو خاص طور پر صرف گناہگاروںکو اپنی لپیٹ میں نہیں لے گا.‘‘

یعنی پھر گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے. یہی بات سورۂ ہود میں بایں الفاظ کہی گئی ہے : 

فَلَوۡ لَا کَانَ مِنَ الۡقُرُوۡنِ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ اُولُوۡا بَقِیَّۃٍ یَّنۡہَوۡنَ عَنِ الۡفَسَادِ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا قَلِیۡلًا مِّمَّنۡ اَنۡجَیۡنَا مِنۡہُمۡ ۚ 
(آیت۱۱۶
’’تو کیوں نہ ایسا ہوا کہ تم سے پہلے کی قوموں میں حق کے ایسے علمبردار ہوتے جو (اپنی اپنی قوموں کے لوگوں کو) روکتے زمین میں فساد مچانے سے ‘مگر بہت تھوڑے لوگ ایسے تھے ‘جنہیں ہم نے اُن میں سے بچا لیا.‘‘

معلوم ہوا کہ عمومی عذاب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپبدی سے روکنے کا عمل جاری رکھیں‘ورنہ آپ بھی عذابِ الٰہی کی زد میں ہوں گے.