جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ‘بدی سے روکنے میں تینوں درجے شامل ہو جائیں گے. دل میں بدی سے حقیقتاًنفرت ہو تب بھی اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا‘ لیکن زبان سے بات کرنا اس سے اوپر کا درجہ ہے اور قوت کے ساتھ روکنا بلند ترین کادرجہ ہے. قوت موجود نہیں ہے تو اس مقصد کے لیے قوت حاصل کرنے کی کوشش کرنا اس کا قائم مقام ہوجائے گا . جیسے کہ حدیث میں آیا ہے: 

مَنْ جَائَ ہُ الْمَوْتُ وَھُوَ یَطْلُبُ الْعِلْمَ لِیُحْیِیَ بِہِ الْاِسْلَامَ فَبَیْنَہٗ وَبَیْنَ النَّبِیِّیْنَ دَرَجَۃٌ وَاحِدَۃٌ فِی الْجَنَّۃِ 
(۱
’’جس شخص کو موت آ گئی اس حال میں کہ وہ اس نیت کے ساتھ علم حاصل کر رہا تھا کہ اس کے ذریعے دین اسلام کو زندہ کرے گاتو جنت میں اُس کے اور نبیوں کے درمیان صرف ایک درجہ کا فرق ہوگا.‘‘

ظاہر بات ہے کہ اس علم سے ایمان اور شریعت والا علم ہی مراد ہو گا جس کے ذریعے سے شریعت کو زندہ کیا جائے‘ نافذ کیا جائے. اگر کوئی شخص یہ علم حاصل کررہا تھا او ر ابھی وہ فارغ التحصیل بھی نہیں ہوا تھا‘لیکن احیاء دین کی نیت سے پورے تن من دھن کے ساتھ لگا ہوا تھا اور اس حال میں ا س کو موت آ گئی تو اس کے لیے اتنی بڑی خوشخبری ہے کہ جنت میں اس کے اور نبیوں کے درمیان ایک درجہ کا فرق ہوگا. یعنی وہ صدیقین میں شمار ہو گا‘ اس لیے کہ انبیاء کے بعد صدیقین کا درجہ ہے.