امرواقعہ یہ ہے کہ اخوتِ باہمی کا جو وسیع تر تصور اسلام نے دنیا میں پیش کیا ہے‘ یہ اور کہیں موجود نہیں ہے. علامہ اقبال نے بڑی خوبصورتی سے اسے اپنے اشعار میں سمویاہے: ؎

کُلُّ مُـؤْمن اِخْوَۃٌ اندر دلش
حریت سرمایہ آب و گلش

یعنی مؤمن کے دل میں یہ بات موجود ہوتی ہے کہ تمام مؤمن آپس میں بھائی بھائی ہیں اور بندہ مؤمن کی سرشت میں حریت و آزادی موجود ہے.انسان اگر ایک اللہ کی غلامی کرلے تو اسے تمام غلامیوں سے نجات مل جاتی ہے.اقبال نے کہا تھا:

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات!

یہ بھی حقیقت ہے کہ جیسے اخوت کا وسیع ترتصور اسلام کے سوا اور کہیں نہیں ملتا‘اسی طرح حریت کا یہ وسیع تصور بھی آپ کو اور کہیں نہیں ملے گا .ہر جگہ کوئی نہ کوئی غلامی تو موجود ہوتی ہے‘چاہے وہ بادشاہوں کی غلامی ہویا جمہوریت میںاکثریت کی غلامی ہو. جمہوریت میں اکثریت کی رائے ماننے پڑی گی چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہواور اکثریت کے مقابلے میں اقلیت کی رائے نہیں چلے گی ‘چاہے وہ صحیح ہو.اسی لیے اقبال نے جمہوریت پر طعن کرتے ہوئے کہا تھا ؎

جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں کو گنا کرتے ہیں‘ تولا نہیں کرتے!

ان غلامیوں سے بڑھ کر بھی ایک غلامی ہے اور وہ اپنے نفس کی غلامی ہے.سورۃ الفرقان میں اس حوالے سے فرمایا گیا: اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ (آیت۴۳’’کیا تم نے دیکھا اُس شخص کو جس نے اپنی خواہش ِنفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟‘‘ان تمام غلامیوں سے آزادی اہل ایمان کی سرشت او رفطرت میں شامل ہے.