دین اسلام کے بغیر امتیازات کا خاتمہ ممکن نہیں

اخوت اور حریت کی طرح مساوات کا وسیع تر اور صحیح تصور بھی اسلام ہی نے پیش کیا ہے اور اسلام ہی تمام بنی نوعِ انسان میں ہر طرح کے امتیازات کو ختم کرتا ہے. ؎

ناشکیب امتیازات آمدہ
در نہادِ او مساوات آمدہ

بندۂ مؤمن انسانوں میں امتیازات کو اہمیت نہیں دیتا. یہ کالایہ گورا‘ یہ مشرقی یہ مغربی‘ یہ اونچی ذات‘یہ نیچی ذات - ان تمام امتیازات سے آزاد کرنے والا پوری انسانی تاریخ میں صرف اللہ کادین ہے‘ اور کوئی نہیں ہے.ورنہ ہمیشہ امتیازات ہوں گے اور یہ کبھی ختم نہیں ہوسکیں گے.کالے گورے کا امتیاز آج بھی امریکہ میں ختم نہیں ہوا ہے. اگرچہ قانونی اور دستوری اعتبار سے جتنی وہاں کوشش کی گئی اس سے زیادہ کوشش ناممکن ہے. وہاں پر امتیازی سلوک (discrimination) بہت بڑا جرم ہے. اس پر مقدمہ بنتا ہے‘ سزا ملتی ہے .لیکن قانون کی دل پر تو حکمرانی نہیں ہوتی. دل میں احساسات موجود ہوتے ہیں‘ جو صرف ایمان و یقین کے ذریعے بدلتے ہیں کہ تمام انسان چاہے کالے ہوں‘ گورے ہوں‘سفید ہوں‘سرخ ہوں‘ شرقی ہوں‘ غربی ہوں‘ پیلے ہوں‘ براؤن ہوں‘ سب اللہ کی مخلوق ہیں اور سب آدم و حوا کی اولاد ہیں. ان سب کا باپ اور ماں مشترک ہے. انسانوں میں رنگ و نسل کا امتیاز تب تک ختم نہیںہو سکتا جب تک دو چیزوں پر ایمان نہ ہو: (۱) سب کا خالق اللہ ہے‘ اور (۲) ساری نوعِ انسانی ایک جوڑے آدم و حوا کی نسل ہیں. ڈارون کے نظریے نے تو انسان کی انسانیت ہی کا انکار کردیا‘ چنانچہ اس نظریے کے مطابق انسانوں کے درمیان کوئی چیز مشترک ہے ہی نہیں.

آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں اس وقت بھارت کو جمہوریت کی معراج پر سمجھا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے .واقعی یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے جمہوریت پر تسلسل کے ساتھ عمل کر کے دکھایا ہے. وہاں شرح خواندگی انتہائی نچلے درجے (low literacy percentage) پر ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ جہاں پر شرح خواندگی زیادہ نہ ہو‘ وہاں جمہوریت نہیں چل سکتی. لیکن انہوں نے شرح خواندگی انتہائی کم درجے پر ہونے کے باوجود جمہوریت کو چلا کر دکھایا ہے اور یہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے‘ لیکن اونچ نیچ کا فرق وہاں ختم نہیں ہو سکا . برہمن اونچا ہے‘ اچھوت اور شودر نیچے ہیں‘ اور انہیں مذہبی تعلیمات سننے کا بھی حق حاصل نہیں ہے. کسی محفل میں کوئی پنڈت بیان کر رہا ہو اور وہاں سے کوئی شودر گزرے اور اس کے کان میں کسی اشلوک کی آواز پڑجائے تو سیسہ پگھلا کر اس کے کان میں ڈال دیا جاتا ہے. اگرچہ وہاں بھی حکومتی سطح پر بڑی کوششیں ہوئی ہیں‘ لیکن آج بھی وہاں اونچ نیچ کا یہ فرق اسی طرح موجود ہے. ہمارے علم میں وہاں کے جو ہندو مسلم فسادات آتے ہیں‘ ان سے بڑھ کر فسادات وہاںاونچی ذات اور نیچی ذات کے ہندوئوں کے درمیان ہوتے ہیں. نچلی ذات کے ہندوؤں کی توپوری کی پوری بستیاں جلا دی جاتی ہیں.

بہرحال بندۂ مؤمن کی سرشت میں مساوات موجود ہے کہ تمام انسان مساوی ہیں‘ پیدائشی طور پر کوئی اونچا نہیں‘کوئی نیچا نہیں. عورت اور مرد میں بھی کوئی اونچ نیچ نہیں ہے اور وہ دونوں ہی اللہ کی مخلوق ہیں. دونوں اگر بہن بھائی ہیں تو دونوں ایک ہی باپ کے نطفے سے ہیں اور انہوں نے ایک ہی ماں کے رحم میں پرورش پائی ہے.ہاں معاشرتی نظام میں مرد و عورت میں فرق ہے. جیسے آپ کے دفتر میں بحیثیت انسان سب برابر ہیں‘لیکن انتظامی معاملات میں چپڑاسی اور افسر برابر نہیں ہیں‘اسی طرح گھر کے ادارے (institution) کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے مردوں کو ایک طرح کااختیار دیا گیا ہے اور اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ کے مصداق گھر کا سربراہ مرد کو بنایا گیاہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ روزی کمانامرد کے ذمے ہے‘نہ کہ عورت کے.