قرآن مجید سے یہ تین مقامات میں نے ابتدا میں بیان کیے تھے‘ جن پر ایک نظر ہم ڈال چکے ہیں. اب آیئے حدیث کی طرف.زیر مطالعہ حدیث میں کچھ منفی احکام آ رہے ہیں کہ یہ نہ کرو‘ یہ نہ کرو‘ جبکہ اس کے برعکس بعض احادیث میں مثبت احکام آئے ہیں کہ یہ کرو ‘ یہ کرو!
زیر مطالعہ حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ وہ فرماتے ہیں کہ حضور نے ارشاد فرمایا: لَا تَحَاسَدُوْا ’’آپس میں حسد مت کرو‘‘ .حسد اور تکبر بدترین گناہ ہیں اوریہی وہ مرض تھے جن کی وجہ سے عزازیل (شیطان)راندۂ درگاہ ہوا. وہ مقربین بارگاہ میں سے تھا اور اسے اللہ کا بہت قرب حاصل تھا. جنوں اور ملائکہ میں واضح فرق موجود ہے کہ ملائکہ نور سے پیدا کیے گئے ہیں اور جن آگ سے ‘ جبکہ انسان کو آب و گل یعنی پانی اور مٹی کے ملغوبے اور گارے سے پیدا کیا گیاہے. پانی اور مٹی کا ملغوبہ کثیف شے ہے‘ جبکہ اس کے مقابلے میں نور بھی لطیف ہے اورنار بھی لطیف ہے . نور اور نار میں مماثلت کی وجہ سے جنات اور فرشتوں میں ایک طرح کا قرب ہے.چنانچہ عزازیل نامی جن اپنی عبادت اور علم کی وجہ سے اتنا آگے بڑھا کہ فرشتوں کی صف میں شامل ہو گیا. لیکن اُس نے حسد اور تکبر میں آکرمار کھائی ہے کہ آدم کو خلافت کا یہ مقام کیوں دے دیا گیا‘ حالانکہ یہ تومیرا حق تھا‘ اس لیے کہ میں اس سے بہتر ہوں: اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ ﴿۱۲﴾ (الاَعراف) ’’میں اس سے بہتر ہوں ‘مجھے تو نے آگ سے بنایا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے (تو میں اسے کیسے سجدہ کروں)‘‘. الغرض حسد اور تکبر نے اسے کہاں سے کہاں لا گرایا کہ یہ اسفل السافلین میں جا گرا.

یہی حسد و تکبر کا معاملہ تھاجس کی وجہ سے یہودی بحیثیت مجموعی حضور پر ایمان لانے سے محروم رہے. صرف چند یہودی آپ پر ایمان لائے تھے .ان میں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ بھی تھے ‘جو ایک بہت بڑے یہودی عالم تھے.لیکن اکثر یہودی ایمان نہیں لائے تھے ‘حالانکہ وہ آپ کو خوب اچھی طرح پہچانتے تھے . قرآن کہتا ہے : یَعۡرِفُوۡنَہٗ کَمَا یَعۡرِفُوۡنَ اَبۡنَآءَہُمۡ ؕ (البقرۃ:۱۴۶’’وہ ان (رسول اللہ )کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں‘‘.لیکن ایمان نہ لانے کی اصل وجہ وہی حسد اور تکبر ہے کہ یہ نبوت تو ہماری جاگیر تھی. آپ کو معلوم ہے کہ تقریباً دو ہزار برس تک نبوت انہی میں رہی ہے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل سے انبیاء کرام علیہم السلام کا سلسلہ چلا ہے‘جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں تو نبوت تھی ہی نہیں.ان کی نسل سے تو بس آخری نبی حضرت محمد آئے ہیں‘ جبکہ دوسری طرف حضرت ابراہیم ؑ کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام نبی ہیں‘ ان کے بیٹے یعقوب علیہ السلام نبی ہیں‘ پھران کے بیٹے یوسف علیہ السلام نبی ہیں‘ پھر کچھ عرصے کے بعد موسیٰ علیہ السلام نبی ہیں اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام نبی ہیں. اس کے بعد چودہ سوبرس تک ان میں نبوت کا تار ٹوٹا ہی نہیں اوران میں ہر وقت کوئی نہ کوئی نبی موجود رہا ہے.یہ بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُھُمُ الْاَنْبِیَاء ’’بنی اسرائیل کے سیاسی راہنما انبیاء ؑ ہوا کرتے تھے‘‘. یعنی سیاسی معاملات ‘حکومتی معاملات‘ انتظامی معاملات‘ سب کے سب انبیاء کے ہاتھ میں ہوتے تھے. کُلَّمَا ھَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہٗ نَبِیٌّ (۱’’جب بھی کوئی نبی فوت ہو جاتا تھا تو کوئی اورنبی اس کی جگہ آ جاتا تھا.‘‘

اس صورتِ حال میں انہوں نے یہ سمجھا کہ نبوت ہماری جاگیر بن گئی ہے. چنانچہ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے محمدرسول اللہ کی بعثت ہوئی تو انہوں نے پروپیگنڈا شروع کردیا کہ نبوت ان اُمیین میں کیسے چلی گئی. یہ تو اَن پڑھ لوگ ہیں‘ جن کے پاس نہ کوئی شریعت ہے‘نہ کوئی کتاب ہے.یہود تو بنی اسماعیل کو کمتر سمجھتے تھے اور اَن پڑھ اور جاہل گردانتے تھے ‘لہٰذا وہ اسی حسد میں ماننے کو تیار نہیں تھے. پھر ان میں تکبر بھی تھا اور وہ کہا کرتے تھے: نَحْنُ اَبْنٰٓـــؤُا اللّٰہِ وَاَحِبَّـــآؤُہٗط ’’ ہم تو اللہ کے بیٹے ہیں اور اُس کے بڑے چہیتے ہیں‘‘.چنانچہ حسد اور تکبر نے انہیں اس مقام تک پہنچادیا کہ اب اللہ تعالیٰ کی مغضوب ترین قوم یہود ہے. اگرچہ اس وقت اللہ نے انہیں عیسائیوں کے ہاتھوں کچھ سہارا دلوایا ہے. اس ضمن میں بڑی تلخ بات کہہ رہا ہوں کہ اس وقت یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ اسی لیے ہے تاکہ امت مسلمہ (خاص طور پر اس کے نیوکلیس عالم عرب) کوان کے ہاتھوں سزا اور عذاب دلوایا جائے . اس حوالے سے میری ایک کتاب (۱) صحیح البخاری‘ کتاب احادیث الانبیائ‘ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل. موجود ہے: ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی حال اور مستقبل‘‘.سابقہ اُمت مسلمہ بنی اسرائیل ہے جنہیں ہٹاکر اس امت (اُمت محمدیؐ )کو اُمت مسلمہ کا مقام دیا گیا.اسی بنا پر وہ حسد اور تکبر کی آگ میں جل گئے ‘لیکن وہ ابھی موجود ہیں ‘ ختم تو نہیں ہوئے.

بہرحال زیر مطالعہ حدیث میں پہلی بات یہ فرمائی گئی کہ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو. اس ضمن میں اس کی وضاحت ہو جانی چاہیے کہ حسد کے مقابلے میں ایک چیز رشک ہے اور وہ جائز ہے. آپ دیکھیں کہ کسی میں بڑی خوبی ہے تو آپ دعا کریں کہ اے اللہ!جیسے تو نے اس شخص کو خوبی عطا کی ہے‘اسی طرح یہ خوبی مجھے بھی عطا کر دے! تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے.مثلاً کسی کو کوئی فضل حاصل ہوا‘ علم حاصل ہوا یا اسے تقویٰ زیادہ ملا ہے تو اللہ سے دعا کر نا کہ مجھے بھی اس کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے دے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے . لیکن دل میں یہ آرزو رکھنا کہ یہ خوبی اس سے سلب کر لی جائے اور مجھے دے دی جائے تو یہ حرامِ مطلق ہے اور اسی کا نام حسد ہے جس سے رسول اللہ نے منع فرمایا ہے.