ایک دوسرے سے بغض رکھنے اور پیٹھ پھیرنے کی ممانعت

زیر مطالعہ روایت میں تیسری بات رسول اللہ نے یہ فرمائی: وَلَا تَـبَاغَضُوْا ’’اور ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو‘‘.دیکھئے‘ ہوتایہ ہے کہ لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتی کر بیٹھتے ہیں. ایک کاروبار میں دو لوگ شریک ہیںاور ایک شریک دوسرے پر زیادتی کر رہا ہے‘یا ایک بھائی دوسرے بھائی پر زیادتی کر رہا ہے. قرآن حکیم میں بھی آیا ہے : وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡخُلَطَآءِ لَیَبۡغِیۡ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ … (صٓ:۲۴’’اور یقینا مشترک معاملہ رکھنے والوں میں سے اکثر ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں.‘‘لیکن جب بھی ایسا ہو تو اسی وقت اس معاملے کی اصلاح اور تصفیہ ضروری ہے. یہ اُمت مسلمہ کی ذمہ داری لگائی ہے کہ جب مسلمانوں میں کوئی جھگڑا یا زیادتی کا معاملہ ہو تو ان میں صلح کرا دیا کرو. سورۃ الحجرات میں فرمایاگیا: اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَ اَخَوَیۡکُمۡ (آیت ۱۰’’ مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں‘ پس اپنے دو بھائیوں کے مابین صلح کرا دیا کرو‘‘.جب معاملہ ختم ہو جائے تو پھر دل میں اس کی میل بھی باقی نہیں رہنی چاہیے. ہونا یہ چاہیے کہ آپ شعوری طور پر اس زیادتی کو معاف کر دیں اور کہیں کہ اے اللہ! اس نے مجھ پر زیادتی کی تھی تومیں نے اسے معاف کیا‘ پس تو بھی اسے معاف فرما دے. اب یہ معاف کرنا سچے دل سے ہونا چاہیے اور پھر کوئی کدورت دل میں نہیں رہنی چاہیے. سورۃ الحشر میں آیا ہے : وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا (آیت۱۰’’(اے اللہ!) ہمارے دلوں میں کسی صاحب ایمان کے لیے کوئی کدورت پیدا نہ ہونے دینا‘‘.اکٹھے رہتے ہوئے زیادتی ہو جاتی ہے اور کچھ نہ کچھ معاملہ ہو جاتا ہے.جیسے حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہماجنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مقابل صف آرا ہوئے تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کے دلوں میں باہم کدورت پیدا نہ ہوئی ہو. لیکن ان دونوں حضرات کی تدفین سے فراغت کے بعد حضرت علیؓ نے کہا تھا: مجھے امید ہے کہ میں اور طلحہ اور زبیر( رضوان اللہ علیہم اجمعین) ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ اِخۡوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیۡنَ ﴿۴۷﴾ ’’اور ہم نکال دیں گے ان کے سینوں میں سے جو کچھ بھی کدورت ہو گی ‘پھر وہ بھائی بھائی (بن کر بیٹھے) ہوں گے تختوں پر آمنے سامنے.‘‘ بعض روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ : ’’مجھے امید ہے کہ میں‘ طلحہ‘ زبیر اور عثمان ( رضوان اللہ علیہم اجمعین)ان ہی لوگوں میں سے ہوں گے …‘‘

رسول اللہ نے اگلی بات یہ فرمائی : وَلَا تَدَابَرُوْا ’’اور ایک دوسرے سے پیٹھ نہ موڑو‘‘.جب کسی کے ساتھ آپ کی دوستی اور تعلق ہوتا ہے تو آپ رُو در رُو ہو کر بات کرتے ہیں اور جب کسی سے آپ کی دشمنی ہے ‘ کوئی بغض ہے اور وہ آرہا ہے تو آپ اس سے پیٹھ موڑ لیں گے.چنانچہ سورۃ الحجر کی درج بالا آیت میں فرمایا گیا ہے جب اہل ایمان کے دلوں سے غل اور کدورت نکل جائے گی تو جنت میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھیں گے .چنانچہ یہاں رسول اللہ نے چوتھی بات یہ فرمائی کہ ایک دوسرے کو پیٹھ مت دکھاؤ.