زیر مطالعہ حدیث میں چار منفی باتوں کو بیان کرنے کے بعد رسول اللہ نے پانچویں بات یہ فرمائی: وَکُوْنُوْا عِبَادَ اللّٰہِ اِخْوَانًا ’’اور اللہ کے بندو ‘آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ‘‘ اللہ کے بندے بن کر سب برابرہو گئے تو اب کوئی حاکم نہیں رہا‘ کوئی محکوم نہیں رہا. جب ایران کا سفیر مدینہ منورہ آیا تو اِدھر اُدھر پھرااور اسے کہیں کوئی محل نظر نہیں آیا تواس نے پوچھا کہ تمہارا بادشاہ کہاں ہے؟اسے جواب ملا کہ ہمارے ہاں بادشاہ نہیں ہوتا‘بلکہ ہمارا ایک امیر ہوتاہے . اس نے پوچھا تو وہ امیر کہاں ہے‘مجھے تو یہاں ان کا کوئی محل نظر نہیں آیا.اسے بتایاگیا کہ ہمارے بیت المال کے کچھ اونٹ گم ہو گئے تھے‘ لوگوں نے بہت تلاش کیے‘ لیکن وہ نہیں ملے تو ہمارے امیر ان اونٹوں کی تلاش میں صحرا کی طرف گئے ہیں. اب ظاہر بات ہے کہ اُس نے کسی شخص کو ساتھ لیاہوگا تاکہ وہ امیر کو پہچان تو سکے اور صحرا کی طرف آپؓ کو ڈھونڈنے نکلا. حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہاونٹ تلاش کرکے تھک گئے تھے اور اونٹ کہیں نہیں ملے تھے. 

دوپہرہوگئی تھی اور دھوپ کی تمازت بھی تیز تھی.ایران کے سفیر نے آپؓ کو اس حال میں پایا کہ آپؓ ایک درخت کے سائے میں اپنے کوڑے کا تکیہ بنا کر لیٹے ہوئے ہیں‘ نہ کوئی گارڈ ہے ‘ نہ کوئی محافظ ہے. تو اُس نے حضرت عمرؓ کے پاس جا کر یہ تاریخی بات کہی : اے عمر! تم انصاف کرتے ہو ‘لہٰذا تمہیں کوئی خوف نہیں‘جبکہ ہمارے بادشاہ اپنی رعایا پر ظلم کرتے ہیں اور ان کاخون چوستے ہیں تو انہیںڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی بغاوت نہ ہو جائے‘کہیں کچھ اور نہ ہو (۱) صحیح مسلم‘ کتاب النکاح‘ باب تحریم الخطبۃ علی خطبۃ اخیہ حتی یاذن او یترک. جائے ‘لہٰذا انہیں گارڈز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنے محل کی فصیل بھی اونچی سے اونچی رکھتے ہیں.آپ نے بھی زیر مطالعہ حدیث میں فرمایا کہ سب کے سب اول تو اللہ کے بندے بن جاؤاورپھر آپس میں بھائی بھائی بن کے رہو!