اس کے بعد رسول اللہ نے فرمایا: التَّقْوٰی ھٰھُنَا وَیُشِیْرُ اِلٰی صَدْرِہٖ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ’’حضور نے اپنے سینے کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے‘ تقویٰ یہاں ہے‘ تقویٰ یہاں ہے‘‘ ہمارے ذہنوں میں متقی شخص کا ایک خاص تصور ہوتا ہے کہ اس کا ایک خاص لباس ہے‘ خاص وضع قطع ہے‘ داڑھی بھی لمبی ہے ‘عمامہ بھی پہنا ہواہے ‘ شلوار یا پاجامہ ٹخنوں سے اوپر ہے ‘تہبند ہے تو نصف ساق پر ہے‘ وغیرہ. ایسے شخص کو ہم متقی سمجھتے ہیں.لیکن رسول اللہ نے فرمایا کہ اصل تقویٰ یہاں دل میں ہوتاہے. ہوسکتا ہے کسی کے اندر ان چیزوں پر ریاکاری موجود ہو اور یہ ساری پسندیدہ چیزیں زیرو سے ضرب کھاکر زیرو ہوجائیں‘ بلکہ ریاکاری کو تو آپ نے شرک سے تعبیر فرمایا ہے :
 
مَنْ صَلَّی یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ‘ وَمَنْ صَامَ یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ‘ وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِی فَقَدْ أَشْرَکَ 
(۱
’’جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی اُس نے شرک کیا ‘اور جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھاتو اس نے بھی شرک کیا‘ اور جس نے دکھاوے کے (۱) مسند احمد‘کتاب مسندالشامیین‘ باب حدیث شداد بن اوس رضی اللہ عنہ. لیے خیرات دی اس نے بھی شرک کیا.‘‘

اس اعتبار سے تقویٰ ظاہری وضع قطع کا نام نہیں ہے‘بلکہ تقویٰ دل کے اندر ہوتا ہے.یہی مضمون سورۃ البقرۃ کی آیت البر میں بھی تفصیل سے بیان ہوا ہے.فرمایا: 

لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ 

’’نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو‘بلکہ اصل نیکی تو اُس کی ہے جو ایمان لائے اللہ پر‘ یومِ آخرت پر‘ فرشتوں پر‘ کتاب پر اور نبیوں پر.‘‘

جب تک آپ کو اپنے کسی نیک عمل کا صلہ صرف اللہ سے درکار نہیں ہے آپ کا وہ عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہے. اگر آپ کواس عمل کے بدلے دنیا میں کچھ مطلوب ہے تو پھر آپ کی وہ نیکی زیرو ہو جائے گی‘ مثلاً آپ کو اس عمل سے شہرت ‘ عزت یا دولت مطلوب ہے تو وہ عمل انجام اور ثواب کے حوالے سے صفر ہوجائے گا.

اللہ کی رضا اور آخرت کی جزا ‘یعنی ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ‘یہ نیت کی دو بنیادیں ہیں. اور پھر اس کی عملی شکل کیا ہے‘یہ ایمان بالرسالت سے معلوم ہو گی. نیکی کا کامل عملی ہیولہ اور اور مجسمہ نیکی محمد رسول اللہ  ہیں‘ لہٰذا ان کی سیرت میں دیکھو کہ کس چیز کا کتنا تناسب مطلوب ہے. نیکیوں میں بھی تناسب ہونا چاہیے‘ اگر ایک نیکی حد سے آگے بڑھ گئی ہے تو وہ بھی کہیں نہ کہیں بدی میں شامل ہو جائے گی . آپ روزے رکھتے جا رہے ہیں‘ رکھتے جا رہے ہیں تو آپ کا یہ طرزِ عمل نیکی کی حدود سے نکل جائے گا‘ اس لیے کہ رسول اللہ نے ہرروزروزہ رکھنے سے روک دیاہے اور آپ نے یہاں تک فرمایا: مَا صَامَ مَنْ صَامَ الْاَبَد (۱’’جو شخص ہمیشہ روزہ رکھتا ہے تواس کا کوئی روزہ نہیں ہے‘‘.اس کی بڑی معقول وجہ ہے.آپ اگر روزانہ روزہ رکھتے ہیں تو گویا آپ نے کھانے کے اوقات بدل دیے اور اب آپ کو دن میں بھوک لگے گی ہی نہیں. (۱) سنن النسائی‘ کتاب الصیام‘ باب الصوم عشرۃ ایام من الشہر… آپ کا نفس بھی اس بات کا عادی ہو جائے گا کہ مجھے تو سحری اور شام کے وقت میں ہی کھانے پینے کو ملے گا تو اس کے اندر طلب ہی نہیں ہو گی‘ اس لیے کہ وہ تو آپ کی عادت بن گئی ہے.پھر اس میں صبر اور بھوک پیاس سے رکنے والی کوئی بات نہیں رہے گی. شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ علیہ نے بھی لکھا ہے کہ عبادات کی آفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی عمل عادت بن جائے اور جب عادت بن جائے تو پھر اس کا وہ اجر و ثواب نہیں رہا. یہ ایک علیحدہ سبق ہے جو میں نے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھا.