یوں سمجھئے کہ یہ حدیث حسن معاشر ت کے اصول‘ اخلاقیات کی تعلیم اور مسلمانوں میں باہمی مواخات کے حوالے سے نہایت جامع ہے. آج د نیا میں معاشرت کے لیے تین بنیادی اصول مانے جا رہے ہیں: مساوات (Equality) ‘ آزادی (Freedom) ‘ اور اخوت (Fraternity). ایچ جی ویلز نے حضور کے بارے میں انہی تین چیزوں کا اقرار کیا ہے‘ حالانکہ وہ شاتم رسول ہے اور اس نے حضور کی زندگی پر بہت شدید اور رکیک حملے کیے ہیں. اس کی انسانی تاریخ پر دو کتابیں ہیں: A Short History of the World یہ ذرا مختصر ہے اور اس کے مقابلے میں ایک ذرا ضخیم کتاب ہے : 

A Concise History of the World 
. اس دوسری کتاب میں ایک باب حضور کے بارے میں ہے اور اس میں اُس نے حضور کی شانِ اقدس میں بڑا گستاخانہ رویہ اختیار کیا ہے.لیکن آخری حصے میں جہاں اس نے خطبہ حجۃ الوداع کے اقتباسات پیش کیے ہیں وہاں وہ حضور کو خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گیا ہے. خطبہ حجۃ الوداع میں حضور نے فرمایا تھا: 

لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیٍّ وَلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا اَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی 
(۱
اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْ آدَمَ وَآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ 
(۲
’’لوگو! کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں! اسی طرح کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی فضیلت نہیں! کسی سرخ و سفید رنگ والے شخص کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں اور اسی طرح کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں! فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے… تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے.‘‘

سورۃ الحجرات میں بھی یہی مضمون تفصیل سے بیان ہوا ہے: 

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ 
(الحجرات:۱۳
’’اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں قوموں اور قبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.اور (۱) مسند احمد‘ ح ۲۲۹۷۸.

(۲) سنن الترمذی‘ ابواب المناقب‘ باب فی فضل الشام والیمن. 
جان لو کہ تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے.‘‘
اللہ تعالیٰ نے مختلف قوموں کی شکلیں ہی مختلف بنائی ہیں کہ دیکھتے ہی سمجھ جاؤ کہ یہ جاپانی چلا آرہا ہے‘ یہ چینی ہے ‘ یہ افغانی ہے‘ یہ پاکستانی اور یہ ہندوستانی ہے.یہ ساری تقسیم پہچان اور تعارف کے لیے ہے‘جبکہ تخلیق کے اعتبار سے سب برابر ہیں .
بہرحال جی ایچ ویلز خطبہ حجۃ الوداع کے مندرجہ بالا جملوں کا حوالہ دے کر کہتا ہے: 

"Although the sermons of human freedom, fraternity and equality were said before. We find a lot of these sermons in Jesus of Nazareth, but it must be admitted that it was Mohammad who for the first time in history established a society based on these principles." 

’’اگرچہ انسانی حریت ‘ مساوات اور اخوت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان چیزوں کے بارے میں مسیح ناصری(حضرت مسیحؑ کی جائے ولادت ناصرہ گاؤں تھا ‘ اس لیے آپؑ مسیح ناصری کہلاتے ہیں) کے ہاں بھی بہت سے مواعظ حسنہ ملتے ہیں‘ لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ صرف محمد عربی ( ) ہی تھے جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ بالفعل ایک باضابطہ معاشرہ انہی اصولوں پر قائم کر کے دکھایا.‘‘

اس ضمن میں یہ نوٹ کر لیجیے کہ بدقسمتی سے ‘ جب کتابوں کے نئے ایڈیشن آتے ہیں تو ایڈیٹنگ ازسر نو کر دی جاتی ہے .اس کتاب کے ساتھ بھی یہی ہوا اور اس کتاب کے نئے ایڈیشن سے یہ جملے نکال دیے گئے ہیں‘ کیونکہ بحیثیت عیسائی اُن کے حلق سے یہ جملے اتر نہیں رہے تھے . آپ اگر کسی لائبریری سے اس کتاب کا پرانا ایڈیشن حاصل کرسکیں تو اس میں آپ کو یہ جملے مل جائیں گے.