قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی قیامِ پاکستان کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے انہی تین بنیادوں کا ذکر کیا تھا.آپ نے کہاتھا کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ عہد حاضر میں اسلام کے اصولِ حریت و اخوت و مساوات کا ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرسکیں.مساوات کا ایک تصور امریکہ میں بھی ہے کہ مرد اور عورت بالکل برابرہیں. اسلام کا تصورِ مساوات یہ نہیں ہے. مرد اور عورت بحیثیت انسان اورانسانی وقار (human dignity) کے حوالے سے دونوں برابر ہیں‘لیکن مرد جب شوہر ہو گیااور عورت بیوی تواب وہ برابر نہیں رہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام میں بیٹی کا حق اور بیٹے کا حق وراثت میں برابر نہیں ہے ‘اس لیے کہ بیٹے نے شادی کرنے کے لیے مہر دینا ہے اوربیٹی کو شادی میں مہر ملنا ہے.اسی طرح بیٹے نے کنبے کی کفالت کرنی ہے‘جبکہ بیٹی تو اپنے شوہر کی ذمہ داری (liability) ہو گی . ساری معاشی ذمہ داری مرد پر ہے‘ عورت پر تومعاش کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے.لہٰذا امریکہ میں مرد و عورت کے درمیان جومساواتی تصور ہے ‘اس کے بارے میں ‘میں کہا کرتا ہوں کہ یہ مساوات نہیں ہے‘بلکہ یہ تو ظلم ہے.اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ کوئی وزنی چیزیں آپ نے کہیں لے کر جانی ہیں اور آپ ایک بچے اور ایک جوان کے سر کے اوپر برابر وزن ڈال دیں گے تو یہ انصاف نہیں ہوگا‘بلکہ یہاں برابری غلط ہو جائے گی.چنانچہ عجیب بات ہے کہ قرآن نے انصاف کا لفظ استعمال ہی نہیں کیا.انصاف عربی کا لفظ ہے ‘یعنی نصف نصف کر دینا‘ آدھا آدھا کردینا.یہ لفظ نہ تو قرآن میں آیا ہے اور نہ احادیث میں آیا ہے‘جسے ہم سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں. قران وحدیث میں عدل اور قسط کے الفاظ آئے ہیں. ترازو کا ایک بازواگر چھوٹاہے اور دوسرا بڑا ہے توچھوٹے والے میں دوسرے کی نسبتآپ زیادہ وزن ڈالیں گے تو وہ ترازو سیدھی رہے گی. اگر مرد کے برابر عورت پر وزن ڈال دیں گے تو اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہوگا.چنانچہ آج مظلوم ترین عورت آپ کو امریکہ میں نظر آئے گی. بہرحال اس وقت یہ میرا موضوع نہیں.